غیبت کا فلسفہ



ایک حدیث میں صحابی رسول جابر بن عبداللہ انصاری رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے پوچھتے ہیں :یا رسول اللہ وللقائم من ولدک غیبتہ ؟ قال ای و ربی لیمحص اللہ الذین آمنوا و یمحق الکافرین (معجم الاحادیث الامام المھدی ص ۱۱۳)

اے رسول اللہ آیا آپ کے فرزند قائم (مہدی علیہ السلام ) کے لئے غیبت ہے ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا : ہاں پروردگار کی قسم اور یہ غیبت اس لئے ہے کہ اللہ تعالی اس دورانیہ میں چاہتا ہے کہ مومنین کو خالص کرے اور کافروں کو نابود کرے ،

یعنی مومنین مختلف حوادث ، مشکلات اور بے عدالتی کے گرداب میں پھنس کر جہاد کرتے ہیں اور آلودہ میلانات اور نفسانی خواہشات سے اپنے دامن کو چھڑا کر پاکیزہ ہوتے رہتے ہیں تاکہ آخر الزمان میں مصلح الھی کی ہدایت تلے انسانوں کی ظلمت بھری راہوں میں راہنمائی کا چراغ بنیں

(۴)امام زمانہ کے پرمقاصد پروگرام کو قبول کرنے کے لئے روحی اور فکری طور پر تیاری:

واضح سی بات ہے کہ اس پروگرام کو قبول کرنے سے پہلے انسانوں میں ضروری استعداد یعنی بلوغت عقلی اور شدید ضرورت کا احساس پیدا ہونا چاہئے امام مہدی علیہ السلام ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے قیام فرمائیں گے ۔اذا قام قائمنا وضع اللہ یدہ علی رؤس العباد فجمع بہ عقولھم و کملت بہ احلامھم ،جب ہمارے قائم قیام فرمائیں گے تو اللہ تعالی اپنا دست لطف و رحمت اپنے بندوں کے ذہن و دل پر رکھے گا اور اس عنایت کے نتیجہ میں ان کے ذہن کامل ہوجائیں گے اور امام کے الھی پروگرام کو قبول کرنے اور ان کی عظمت کے آگے سرجھکانے کو تیار ہوجائیں گے ۔

(۵)امام زمانہ (عج) کی تیاری:

اللہ تعالی کی طرف سے یہ جو عظیم ذمہ داری ان کے دوش مبارک پر رکھی گئی یملا الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا (معجم الاحادیث الامام المھدی ص ۱۱۳)اس کے لئے تیاری بھی ایک وجہ غیبت ہوسکتی ہے۔

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : یطف الھوی علی الھدی اذا عطفوا علی الھوی و یعطف الرای علی القرآن اذا عطفوا القران علی الرای (نہج البلاغہ صبحی صالح خطبہ ۱۳۸)

مندرجہ بالا دونوں احادیث میں غور کرنے سے معلوم ہے کہ اللہ تعالی کے اس عظیم مصلح کو دو زمانوں میں دو بڑی مصبیتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا ایک عالمی سطح پر جس کا تعلق تمام انسانوں سے ہے اور دوسری اسلامی دنیا میں کہ جس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے عالمی سطح پر مصیبت ظلم و ستم ہے کہ جس نے انسانی زندگی کو نابودی کے دھانے پر کھڑا کیا ہوا ہے اور انسانوں کی ہوا و ھوس اور حیوانی بے لاگ خواہشات ہیں کہ جہنوں نے انسانوں کو پیغمبروں کی نورانی ھدایت والے راستے سے منحرف کرکے ضلالت و غلاظت کی کھائیوں میں گرا دیا ہے، تو وہ الھی وجود عبدیت الھی کے سماں میں مرحلہ کمال تک پہنچ رہا ہے اور عالم بشریت کے وجدان و ضمیر اس کی انتظار میں ہیں کہ کب وہ اپنے دوش پر پرچم ھدایت لئے ہوئے انسان کو خواہشات و میلانات ، گناہ اور ظلم کی ظلالت بھری فضا سے نکالے اور ان کی شخصیت کے حسین شگوفے کھل اٹھیں اور ان کے دلوں پر حکمت و خیر کے چشمے جاری ہوں اور وہ اپنے پروردگار کے مقام قرب کی طرف سفر کا آغاز کریں ۔

ہاں وہ انسانوں کے ہاتھوں سے ہوا و ہوس کا پرچم لے لیں گے اور ہدایت کا علم ان کے کاندھوں پر رکھ دیں گے یعطف الھوی علی الھدی اذ عطفوا الھدی علی الھوی یہ عالمی عدل و انصاف کا ایک مصداق اور حیات انسانی اور الھی انبیا کی رسالت کا وہ ھدف ہے کہ قرآن مجید نے اس کا وعدہ دیا ہے لیقوم الناس بالقسط ، اس طرح کہ رحمت کی چھتری عالم انسانیت پر اپنا سایہ کرے تاکہ انسانی معاشرہ اس عدالت کے خیمہ میں صلح، محبت ، صداقت، امن،اور اللہ کی بندگی میں اولیا اور انسان کامل کی صورت میں تیار ہوں، یعبدوننی لایشرکون بی شیبا ،پردہ غیبت سے اپنا جلوہ ظاھر کرے گا اور پوری زمین کو الھی پرستش کا معبد بنائے گا۔

اب دیکھتے ہیں کہ جھان اسلام اور قرآن کے پیروکاروں پر کیا ہوگا؟ تو اس زمانہ غیبت میں جہاں اسلام میں ظلم و ستم کسی اور شکل میں ظاھر ہوگا اور وہ بے عدالتی کی شکل ہوگی قرآن مجید کی اپنی ناقص اور بدعملی سے آلودہ آراء کے ساتھ تفسیر ہوگی ،دنیا کے طالب اور دین فروش لوگ دین اور قرآن مجید کو دنیاوی مال تجارت سمجھ کر اپنی پست دنیاوی زندگی پر برباد کریں گے، بقول امام علی علیہ السلام کے ایسے جاھل لوگ لوگوں پر مسلط ہوں گے کہ لوگ لاعلمی میں انہیں علماء سمجھیں جبکہ وہ علم سے خالی ہوں گے، ایسے لوگ اپنی جاھلانہ اور گمراہ کن باتوں سے لوگوں کو اپنے دام میں پھنسائیں گے اور ان کی سادگی اور جھالت سے خوب فائدہ اٹھائیں گے اور آیات کی غلط تفسیر کرتے ہوئے ان سے سنگین جرائم و گناہ کروائیں گے، وہ ظاھر شبھات سے احتیاط کریں گے لیکن شبھات میں غرق ہوں گے بدعت کے مخالف ہوں گے مگر خود سب سے بڑے بدعت گزار ہوں گے ان کا ظاھر انسان ہوگا مگر باطن حیوان سے بدتر ہوگا انہیں نہ راہ ہدایت کی پہچان ہوگی کہ پیروی کریں اور نہ سیاہی قلب کی بنا پر اپنی گمراہی کا علم ہوگا کہ اس سے بچیں وہ مردہ ہوں گے کہ جب وہ سانس لے رہے ہوں گے (اقتباس از خطبہ ۷۶ نہج البلاغہ)

تو امام مہدی اس صورت میں قرآن مجید کو ان کی پرخطا اور ناحق آراء و نظریات کی شکنجہ سے آزاد کروائیں گے اور ان بدعمل خائن ، دنیا پرست ، فریب کار اور نام کے علماء کو نابود کریں گے، ایسا عظیم کام کہ جو تمام انبیاء و رسل و ائمہ الھی کی تبلیغ کا مقصود ہے اسے انجام دینے کے لئے اپکا معنوی تکامل ضروری ہے اس حوالے سے یہ بھی ایک وجہ غیبت شمار ہوتی ہے اگرچہ آپ حجت الھی اور اسم اعظم پروردگار ہیں پوری کائنات میں کامل ترین انسان ہیں اور سب سے زیادہ مقرب الھی ہیں لیکن اس قانون قرآنی کی بنا پر قل رب زدنی علما آپ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ الھی تربیت ، تعلیم جلال و جمال حق سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور ھر حوالے سے انسانوں کی زندگی میں بالخصوص مومنین کی نیتوں اور اعمال دین میں ان کی باطنی ھدایت میں مشغول ہیں تاکہ جنود الھی کی شکل میں آنے والے کل میں تمام قوتوں کے ساتھ باطل سے ٹکرائیں گے اور حق و عدالت کے نور سے پوری کائنات کو روشن کردیں۔



back 1 2 3 4