قران وعترت کی ہماہنگی کے جلوے



:اور اگر تم لوگوں کو اس (کتاب)کے بارے میں شبہ ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسا کوئی سورہ بنا لاو اور اللہ کے علاوہ اپنے حامیوں کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو"

{أَم یَقُولُونَ افتَرَاہُ قُل فَأتُوا بِعَشرِ سُوَرٍ مِثلِہِ مُفتَرَیَاتٍ وَادعُوا مَن استَطَعتُم مِن دُونِ اﷲِ إِن کُنتُم صَادِقِینَ}[4]

:کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے(قرآن کو)نور بنایا ہے؟کہہ دیجئے!اگر تم سچے ہو تو اس جیسی خود ساختہ دس سورتیں بنالاو اور اللہ کے سوا جس جس کو بلا سکتے ہو بلالاو"

ایک چیز کو دوسری چیز سے پہچاننا اس وقت ممکن ہے جب معرِّف(شناخت کرنے والا) شناخت کے لحاظ، معرَّف(جس کی شناخت کرنی ہو) سے روشن تر ہو، اور عام و خاص میں اس کے مساوی ہو۔ اس لئے کہ کسی چیز کا ایک اخص(نہایت خاص) یا اعم(نہایت عام) مفہوم کے ذریعہ پہچاننا، ممکن نہیں ہے۔ جس طرح خدا وند عالم کی تدوینی کتاب، کی کوئی مثل ونظیر نہیں ہےکہ جس کا اس کے ساتھ مقایسہ ہو اوراس کے ساتھ پہچانا جائے، اسی طرح خدا وند متعال کی تکوینی کتاب یعنی عترت اطہارعلیھم السلام کی مانند کوئی چیز،الٰہی اسماء و صفات کا مکمل مظہر اور جلوہ ہونے میں ان کی ہم رتبہ نہیں ہے اور ظہور کی شدت میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور نہ کوئی اس کی مثال اورنظیر ہے، یہاں تک کہ ان کی معرفت کے مقام میں وارد ہوکر، ان کا دوسروں کے ساتھ مقایسہ ممکن ہو۔ جیساکہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا:

“نحن أھل البیت لا یقاس بنا أحد من عباد اﷲ”[5]

:ہم اہل بیت سے اللہ کے کسی بندے کا مقایسہ نہیں ہوسکتا ہے

" اور امام علیؑ نے بھی فرمایا:

 â€œÙ„ا یقاس بآل محمد ï·º من ھٰذہ الأمۃ أحد”[6]

:اس امت میں کوئی آل محمد ﷺسے مقایسہ نہیں کرسکتا" لہٰذا قران وعترت کی معرفت مثال یا تشبیہ کے ذریعے نہیں بیان کی جاسکتی ہے کہ قرآن فلان کتاب کی طرح ہے لیکن اس سے بڑھ کرہے یاامام عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) خدا کے فلاں صالح بندہ کی طرح ہیں لیکن اس سے بہتر ہیں، بلکہ کہنا چاہئے کہ قرآن وہی امام ہے لیکن صامت، اور امام وہی قرآن ہیں لیکن ناطق، ان میں ہر ایک کو دوسرے کے ذریعہ کہ جو مخاطب کے نزدیک زیادہ معروف ہو،پہچانا جائے گا۔

قرآن اور عترت انسانی معاشروں کیلئے حیات آفرین ہیں۔ جیساکہ قرآن، کلام خدااور پیغمبر اسلام ﷺ کی دعوت کی یوں شناخت کروارہا ہے:



back 1 2 3 4 5 6 7 next