انسانی حیات، قرآن مجید کی نظر میں



۲۔ “اللّٰہمَ عرّفنی نفسک فإنک إن لم تعرّفنی نفسک لم أعرف نبّیک، اللّٰہمَ عرّفنی رسولک فإنک إن لم تعرّفنی رسولک لم أعرف حجتک، اللّٰہمَ عرّفنی حّجتک فإنک إن لم تعرّفنی حجتک ضلَلتُ عن دینی”

جو شخص جانتا ہے کہ پیغمبر کا کوئی جانشین ہے اور پھر یہ گمان کرےکہ سقیفہ کا بنایا ہوا شخص پیغمبر کا جانشین ہوسکتا ہے،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس Ù†Û’ پیغمبر Ú©ÛŒ حقیقی معرفت پیدا  نہیں Ú©ÛŒ ہےکیونکہ اس Ú©ÛŒ نگاہ میں پیغمبر ï·º صرف اسلامی معاشرہ کا حاکم یا رہبر اور مملکت  کا سربراہ  بالفاظ دیگر ملک کا شخص اول ہے۔

ایسا شخص پیغمبر کو اس آیت:

﴿ $tBur ß,ÏÜZtƒ Ç`tã #“uqolù;$# ÇÌÈ ÷bÎ) uqèd žwÎ) ÖÓórur 4ÓyrqムÇÍÈ﴾ ([4])

وہ خواہش سے نہیں بولتا یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو  اس پر نازل  Ú©ÛŒ جاتی ہے،

کی روشنی میں نہیں پہچانتا ہے، تاکہ اسے معلوم ہو کہ پیغمبر اکرم ﷺ کے فرامین نہ تو ان کے شخصی اجتھاد کا نتیجہ ہیں اور نہ حدس وگمان پر مبنی ہیں بلکہ معصوم نبی اور ان کے صالح جانشین کے فرامین

(7poYÉit/ `ÏiB ¾ÏmÎn/§‘ )

اپنے رب سے واضح دلیل رکھتے ہیں([5])

کی بنیاد پر ہے اوروہ یہ سب کچھ علم حضوری وشہودی کے ذریعہ خدا وند عالم سے دریافت کرتے ہیں اور پھر ابلاغ فرماتے ہیں۔ ([6])اس معرفت سے بے خبر شخص کیا جانتا ہے کہ کونسا شخص پیغمبر کی جانشینی کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جب تک برھان لمّ([7]) نہ ہو  یا ہم اس سے جاہل ہوں اور اس برھان Ú©ÛŒ بنیادپر خدا Ú©ÛŒ معرفت حاصل نہ ہو، ہم انبیاءاورپیغمبروں Ú©ÛŒ ضرورت Ú©Ùˆ نہیں سمجھ سکیں Ú¯Û’Û” لیکن اگر خدا Ú©Ùˆ پہچان لیا اور جان لیا کہ اس Ù†Û’ ہمیں پیدا کیا ہے ،اور  ہمیں اسی Ú©ÛŒ طرف پلٹ کرجانا ہے ØŒ کائنات اور انسان کا پیدا کرنے والا سب Ú©Ùˆ روزی پہنچاتا ہے، ہمارا حساب وحشر اسی Ú©Û’ ساتھ ہونا ہے اور آخر کار چونکہ ہمارے سارے علمی وعملی کام اس سے مربوط ہیں تو ناچار ہم اسی Ú©ÛŒ طرف پلٹ کر جائیں Ú¯Û’ØŒ تو ایسی صورت میں ہم اس Ú©Û’ نمایندہ Ú©ÛŒ ضرورت کوسمجھ لیں Ú¯Û’ اور اس Ú©ÛŒ معرفت حاصل کریں Ú¯Û’Û” اس علم کےزیر سایہ، وہ قانون جو اطاعت Ú©ÛŒ قابلیت رکھتا ہوگا اور ہمیں سعادت وفلاح Ú©ÛŒ طرف راہنمائی کرے گا، اسے ہم پہچان لیں Ú¯Û’ گویا ہر قانون Ú©Ùˆ اپنی سعادت Ú©Û’ لئے کافی نہیں سمجھیں Ú¯Û’ اور اس کےمدمقابل تسلیم نہیں ہونگے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next