انسانی حیات، قرآن مجید کی نظر میں



چونکہ قرآن کفر Ú©ÛŒ زندگی Ú©Ùˆ موت کےمساوی جانتا  ہے اور مومنوں Ú©ÛŒ زندگی Ú©Ùˆ حقیقی حیات قلمداد کرتا ہے، پس حقیقی مسلمان Ú©Û’ عنوان سے جینا اور مرناکہ جو حقیقی حیات Ú©Û’ مترادف ہےوہ صرف ہر زمانہ Ú©Û’ ولی اللہ یعنی امام عصر Ú©ÛŒ شناخت اور ان Ú©ÛŒ پیروی اوراطاعت Ú©Û’ ذریعہ ممکن ہے۔

معرفت امام کاحقیقی مفہوم

امام Ú©Û’  مبارک نام Ú©Ùˆ جاننا، ان Ú©Û’ والدین Ú©Û’ اسم ØŒ ان Ú©ÛŒ تاریخ پیدائش، آغاز امامت ØŒ مدت امامت اور اسی طرح Ú©Û’ دیگر نکات سےآگاہی  دراصل امام Ú©Û’ حسب ونسب کا جاننا ہے۔ یہ معرفت امام اور امامت جیسے بلند وارفع مقام Ú©ÛŒ شناخت کا معمولی سا مرتبہ ہے۔ یہ معلومات اگر چہ کسی حدتک لازم ہیں اور بعض مواقع پر ضروری بھی ہیں، لیکن بہت اہم اور کافی نہیں ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ امام Ú©ÛŒ معرفت Ú©ÛŒ حقیقت، امامت Ú©ÛŒ معرفت Ú©ÛŒ ذریعہ حاصل ہو۔ امیر المو منین علیؑ کےفرمان Ú©Û’ مطابق انسان کابلند واعلی اورعاقل ہونا، اس Ú©Û’ موحّد ہونے،نبوی وعلوی فکر کرنے اور ولائی زندگی بسر کرنے میں مضمر ہے۔ یعنی خدا، پیغمبر اور ان Ú©Û’ جانشینوں Ú©ÛŒ شناخت  رکھنااور ولائی انداز میں قرآن وعترت Ú©Û’ معیار پرراستہ Ø·Û’ کرنا ہے۔

حضرت علی ؑ نے اس معرفت کے راہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

“اعرفوا اﷲ باﷲ والرسول بالرسالۃ وأُولی الامر بالمعروف والعدل والاحسان” ([11])

 Ø®Ø¯Ø§ Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ الوہیت Ú©Û’ ذریعہ پہچانو اور رسول Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ رسالت Ú©Û’ ذریعہ۔ جس Ù†Û’ الوہیت Ú©Ùˆ پہچان لیا وہ بہترین خدا شناس ہوگیا،جس Ù†Û’ جان لیا کہ خدائی اورالو ہیت یعنی اس کاذاتی طور پر مطلق ہونا،لامحدود  وجود رکھنا ،جس Ú©ÛŒ قدرت کبھی ختم نہ ہونے والی ہے اور جس کاعلم ہمیشہ ہو، وہ سمجھ جائے گا کہ پروردگار Ú©ÛŒ ذات قدسی ایک واضح اور معین موجود ہے  کہ جس میں سارے کمالات پائے جاتے ہیں اور اس Ú©ÛŒ صفات عین ذات نیز ایک دوسرے Ú©ÛŒ عین ہیں۔ اگرچہ مفہوم Ú©Û’ لحاظ سےہر ایک دوسرے سے مختلف  ہیں،لیکن‌تجلی Ú©Û’ لحاظ سے ایک دوسرے Ú©ÛŒ عین ہیں۔

ہ ایسا خدا ہے جو تمام حالات میں انسان Ú©Û’ ساتھ ہے، وہ تمام دوسروں Ú©ÛŒ نسبت انسان Ú©Û’ حتٰی کہ خود اس Ú©Û’ نفس سے بھی زیادہ اس سے قریب ہےاور وہ ارحم الراحمین ہے۔ جس شخص Ù†Û’ ان معانی کوسمجھ لیا، ہمیشہ کا ئنات کواللہ کا مظہراور اپنے آپ Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ بارگاہ میں حاضر سمجھے گا اور  جس Ù†Û’ نبوت ورسالت Ú©Û’ معیار Ú©ÛŒ شناخت حاصل کرلی ہے وہ مکمل طور پرپیغمبر شناس ہے۔

حضرت امام علیؑ اس موحّد اور پیغمبر شناس کے لئے جو چاہتا ہے کہ پیغمبر ﷺ کے جانشینوں ،معصوم اماموں اور ان کے نائبوں (کہ جو سیاسی فقہ میں لوگوں کے فکری اوردینی پیشوا ہیں) کی شناخت ومعرفت پیدا کرے۔اس کے لئے راستے کو واضح کرتے ہوئے اس طرح فرماتے ہیں:

“أُولی الامر بالمعروف والعدل والاحسان” ([12])

اولی الامر کومعروف پر عمل کرنے، عدالت کومحفوظ اوراجرا کرنے اور احسان کی بنیاد پر عمل کرنے کے ذریعہ پہچانو، لہٰذا وہ چیز جس سے امام کی حقیقی شناخت ومعرفت حاصل ہوتی ہے وہ صرف امام کو نام، عنوان اور حسب ونسب کے ذریعہ پہچاننا نہیں ہے بلکہ امام کی حقیقی معرفت ان کی امامت اور ان کی صفات کے جاننے میں پوشیدہ ہے۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنینؑنے معرفت کا بنیادی اورمفید طریقہ بیان فرمایا ہے۔

اس بنیادی راستے کو طے کرنے لے لئے مختلف روشیں ہیں جس طرح خدا وند عالم کی شناخت کے لئےصدیقین کے طریقہ سلوک کو ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ صدیقین وہ لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ کواس کے ذریعہ پہچانتے ہیں جس طرح لوگ سورج کو نہ کسی کے خبر دینے ، نہ اس کی گرمی اور ہوا کی روشنی کے ذر یعہ پہچانتے ہیں بلکہ خود اسے دیکھ کر پہچانتے ہیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next