قرب الٰھی کی اهمیت



اس روز بہت سے چھرے حشاش و بشاش اپنے پروردگار کو دیکھ رھے ھوں گے۔

 Ù‚رب الٰھی Ú©Û’ حصول کا راستہ

 Ú¯Ø°Ø´ØªÛ مباحث میں بیان کیا جا چکا Ú¾Û’ کہ انسانی تکامل،کرامت اکتسابی اور کمال نھائی کا حصول اختیاری اعمال Ú©Û’ زیر اثر ھے،لیکن یہ بات واضح رھے کہ ھر اختیاری عمل،ھرانداز اورھرطرح Ú©Û’ اصول Ú©ÛŒ بنیادپر تقرب کا باعث نھیں Ú¾Û’ بلکہ جیسا کہ اشارہ ھواھے کہ اس سلسلہ میں وہ اعمال، کار ساز ھیں جو خدا،معاد اور نبوت پر ایمان رکھنے سے مربوط Ú¾ÙˆÚº اور تقوی Ú©Û’ ساتھ انجام دیئے گئے Ú¾ÙˆÚºÛ” عمل Ú©ÛŒ حیثیت ایمان Ú©ÛŒ حمایت Ú©Û’ بغیر ایک بے روح جسم Ú©ÛŒ سی Ú¾Û’ اور جو اعمال تقویٰ Ú©Û’ ساتھ نہ Ú¾ÙˆÚº بارگاہ رب العزت میں قابل قبول نھیں ھیں:<إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ المُتَّقِینَ>[6](خدا تو بس پرھیزگاروں سے قبول کرتا Ú¾Û’)لہٰذا کھا جا سکتا Ú¾Û’ کہ خداوندعالم سے تقرب Ú©Û’ عام اسباب وعلل،ایمان اور عمل صالح ھیں،اس لئے کہ جو عمل تقوی Ú©Û’ ھمراہ نہ Ú¾Ùˆ خداوندعالم Ú©Û’ سامنے پیش ھونے Ú©ÛŒ صلاحیت نھیں رکھتا اور اسے عمل صالح بھی نھیں کھا جاسکتاھے۔

گذشتہ مطالب Ú©ÛŒ روشنی میں واضح ھوجاتا Ú¾Û’ کہ جوچیز حقیقت عمل Ú©Ùˆ ترتیب دیتی Ú¾Û’ وہ در اصل  عبادی عمل Ú¾Û’ یعنی فقط خدا Ú©Û’ لئے انجام دینااور ھر عمل کا خدا Ú©Û’ لئے انجام دینا یہ اس Ú©ÛŒ نیت سے وابستہ Ú¾Û’ ”إنّما الاعمال بالنیات“[7]آگاہ Ú¾Ùˆ جاو کہ اعمال Ú©ÛŒ قیمت اس Ú©ÛŒ نیت سے وابستہ Ú¾Û’ اور نیت وہ تنھا عمل Ú¾Û’ جو ذاتاً عبادت Ú¾Û’ لیکن تمام اعمال کا خالصةً لوجہ اللہ ھونا، نیت Ú©Û’ خالصةً لوجہ اللہ ھونے Ú©Û’ اوپر Ú¾Û’ØŒ یھی وجہ Ú¾Û’ تنھا وہ عمل جو ذاتاً عبادت ھوسکتا Ú¾Û’ وہ نیت Ú¾Û’ اور تمام اعمال، نیت Ú©Û’ دامن میں عبادت بنتے ھیں اسی بنا پرنیت Ú©Û’ پاک ھوئے بغیر کوئی عمل تقرب کا وسیلہ نھیں ھوسکتا Ú¾Û’ØŒ یھی وجہ Ú¾Û’ کہ تمام با اختیار مخلوقات Ú©ÛŒ خلقت کا ھدف عبادت بنایا گیا Ú¾Û’: <ÙˆÙŽ مَا خَلَقتُ الجِنَّ ÙˆÙŽ الإنسَ إِلا لِیَعبُدُونَ>[8](اور میں Ù†Û’ جنوں اور آدمیوں Ú©Ùˆ اسی غرض سے پیدا کیا Ú¾Û’ کہ وہمیری عبادت کریں۔)

 ÛŒÛ نکتہ بھی قابل توجہ Ú¾Û’ کہ قرآن Ú©ÛŒ زبان میں مقام قرب الٰھی Ú©Ùˆ حاصل کرنا ھر کس Ùˆ ناکس، ھر قوم Ùˆ ملت Ú©Û’ لئے ممکن نھیں Ú¾Û’ اور صرف اختیاری Ú¾ÛŒ عمل سے(اعضاو جوارح Ú©Û’ علاوہ)اس تک رسائی ممکن Ú¾Û’Û”

مذکورہ تقریب کے عام عوامل کے مقابلہ میں خداوندعالم سے دوری اور بد بختی سے مراد ؛ خواھش دنیا، شیطان کی پیروی اور خواھش نفس(ھوائے نفس) کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ھے،حضرت موسی(ع)کے دوران بعثت،یھودی عالم” بلعم باعور“ کے بارے میں جو فرعون کا ماننے والا تھا قرآن مجید فرماتا ھے:

<وَاتلُ عَلَیھِم نَبَاَ الَّذِی آتَینَاہُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنھَا فاَتبَعَہُ الشَّیطَانُ فَکَانَ

مِنَ الغَاوِینَ وَ لَوشِئنَا لَرَفَعنَاہُ بِھَا وَ لٰکِنَّہُ اَخلَدَ إِلَیٰ الارضِ وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ>

اور تم ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنادو جسے ھم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑااور آخر کار وہ گمراہ ھوگیا اور اگر ھم چاہتے تو ھم اسے انھی آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو خود ھی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواھش کا تابعدار بن بیٹھا۔[9]

تقرب خدا کے درجات

قرب الھی جو انسان کا کمال نھائی اور مقصود Ú¾Û’ خود اپنے اندر درجات رکھتا ھےحتی انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط رکھتا ھوتو انسان Ú©Ùˆ ایک حد تک خداسے قریب کردیتا Ú¾Û’  اس لئے انسان اپنے اعمال Ú©ÛŒ کیفیت ومقدار Ú©Û’ اعتبار سے خداوند قدوس Ú©ÛŒ بارگاہ میں درجہ یا درجات رکھتا Ú¾Û’ØŒ اور ھر فرد یا گروہ کسی درجہ یا مرتبہ میں ھوتا Ú¾Û’:<ھُم دَرَجَاتٌ عِندَ اللّٰہِ>[10](وہ لوگ(صالح افراد)خدا Ú©ÛŒ بارگاہ میں(صاحب)درجات ھیں۔)اسی طرح پستی اور انحطاط نیز خداوندعالم سے دوری بھی درجات کا باعث Ú¾Û’ اورایک چھوٹا عمل بھی اپنی مقدار Ú©Û’ مطابق انسان Ú©Ùˆ پستی میں گراسکتا Ú¾Û’ØŒ اسی بنا پر انسان Ú©ÛŒ زندگی میں ٹھھراو اور توقف کا کوئی مفھوم نھیں ھے،ھر عمل انسان کویا خدا سے قریب کرتا Ú¾Û’ یا دور کرتاھے، ٹھھراو اس وقت متصور Ú¾Û’ جب انسان مکلف نہ ھو، اور خدا Ú©Û’ ارادہ Ú©Û’ مطابق عمل انجام دینے Ú©Û’ لئے جب تک انسان اختیاری تلاش Ùˆ جستجو میں Ú¾Û’ مکلف Ú¾Û’ چاھے اپنی تکلیف Ú©Û’ مطابق عمل کرے یا نہ کرے، تکامل یا تنزل سے ھمکنار ھوگا۔

<وَ لِکُلِّ دَرَجَ-اتٌ مِمَّا عَمِلُ-وا وَ مَا رَبُّ-کَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعمَل-ُونَ>



back 1 2 3 4 5 next