عشق کربلائي



          ليکن اس طرف سے يہ بھي ايک ناقابلِ انکار حقيقت ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہي اس نورِ اسلام کا نسل در نسل جہالت Ùˆ گمرہي Ú©Û’ پاتال ميں بھٹکنے والے عرب بدوٴوں Ú©ÙŠ ايک خاطر خواہ تعداد پر کوئي خاص اثر نہ ہوا البتہ محضر يا تثليث Ú©Û’ ان فرزندوں Ù†Û’ اپنے ظاہر منافع اور ماري مناصب Ú©Û’ حصول يا تلوارِ علوي Ú©Û’ خوف سے ”قبول اسلام“ Ú©ÙŠ صليب عارضي طور پر اپنے Ú¯Ù„Û’ ميں لٹکا تو لي مگر وہ پوري طرح اپنے آپ Ú©Ùˆ اس الٰہي ماحول ميں Adjust نہيں کر پا رہے تھے۔ ادھر شيطان بھي اپنے مذموم ارادوں سميت بوکھلا اٹھا اس Ù†Û’ بھي اپنا وعدہ دہرايا کہ ميں انسانوں Ú©Ùˆ گمراہ کروں گا۔ لہٰذا اسے بھي ايسے سپوتوں Ú©ÙŠ تلاش تھي سو وہ بھي تمام تر ابليسي ہتھکنڈوں سے ليس ہو کر ميدان عمل ميں آگيا۔ جس Ú©Û’ لئے ان افراد Ù†Û’ پورا پورا زمينہ فراہم کر ديا۔

          ہر ساعت لمحات کا خون پي کر وقت Ú©ÙŠ بھٹي ميں Ù¾Ú© کر ماہ Ùˆ سال ميں کندن بن رہي تھي اور ہر گذرنے والا لمحہ آنے والے لحظے Ú©Ùˆ اپني عاقبت اور انجسام Ú©ÙŠ خبر سنا رہا تھا۔ وقت Ú©ÙŠ بے رحم موجوں ميں ادہر اسلام کا الٰہي نظام پروان Ú†Ú‘Ú¾ رہا تھا اور ادھر يہ طبقہ خاص بھي اوہام پرستي (Supirtition) Ú©ÙŠ طرف تيزي سے لوٹ رہا تھا۔ اسلام Ù†Û’ نصف صدي سے زائد اس عرصہ حيات سے نشيب Ùˆ فراز (ups and downs) ديکھ لئے تھے۔ اور اب يہ طبقہ خاص چاہتا تھا کہ کسي نشيب ميں اسلام کا کام اپنے انجام Ú©Ùˆ پہنچ جائے۔ اور بالآخر وہ لحظہ بھي آ گيا جس Ú©ÙŠ پہلي اينٹ سقيفہ ميں رکھي گئي تھي اب ايک مضبوط قلعے Ú©ÙŠ صورت بن چکا تھا۔ا ور ظالم گذشتہ روايات پہ نئے دور Ú©ÙŠ چلمن جلا کر فرعونِ وقت Ú©Û’ ہاتھوں ميں دے رہا تھا۔ جونہي اسلام Ú©ÙŠ اور اسلامي قوانين Ú©ÙŠ ظاہري باگ ڈور ان Ú©Û’ ہاتھ ميں آئي ضبط Ú©Û’ سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ اور وقت کا اندھا جوگي اپني ٹوٹي بين اٹھائے ”قصرِ فرعونيت“ Ú©Û’ سپولے تلاشنے عرب Ú©Û’ نخلستانوں ميں Ù†Ú©Ù„ کھڑا ہوا۔ ضمير Ùˆ قلم اموي دولت Ú©Û’ آگے جھک گئے۔ فتووٴں Ú©ÙŠ تال پہ ناچنے والا عرب کا سادہ لوح مسلمان بھي سياست اموي Ú©Û’ اس شاطرانہ کھيل اور کثيف ارادے بھانپ نہ پايا۔ اسلام Ú©Û’ کنويں Ú©Û’ آب درنگ تيزي سے بگڑنے Ù„Ú¯Û’Û” علي Ú©ÙŠ ذولفقار پہ پلنے والے اموي کتوں Ù†Û’ اپنا مزاج بدلنا شروع کر ديا جو آہستہ آہستہ اپني طينت Ùˆ سرشت Ú©ÙŠ طرح لوٹ رہا تھا۔

          ضرورياتِ مذہب Ùˆ دين کا مذاق اڑانا بطورِ فيشن Fashion متعارف ہو چکا تھا۔ اور سر عام يہ کہا جانے لگا کہ نہ معاد ہے نہ قيامت Ú©Ú†Ú¾ وحي ہے نہ خدا ہے۔ يہ تو بني ہاشم کا ڈھونگ ہے۔ خداسے دوري رواج Ù¾Ú©Ú‘ رہي تھي۔ عشق خداوندي Ú©ÙŠ شمع چراغ صبحگاہي Ú©ÙŠ طرح ہڑپڑانے Ù„Ú¯ÙŠ جس اسلام Ù†Û’ انسان Ú©Ùˆ انسانيت بخشي آج وہي اس انسان Ú©Û’ ہاتھوں زخم خوردہ تھا۔

          جہاں ايک طرف خليفہ وقت ابليس Ú©ÙŠ ÚˆÚ¯ÚˆÚ¯ÙŠ پہ تخت خلافت پہ بندروں Ú©ÙŠ طرح ناچ رہے تھے وہاں اسلام Ú©Û’ حقيقي پيروکار اپنے دل Ú©ÙŠ کٹيا ميں شمع توحيد فروزاں کئے تھے۔ عشقِ خداورزي ان Ú©Ùˆ انگ انگ سے پھوٹ رہا تھا۔ ”اني اعلم ما لا تعلمون“ Ú©Û’ مصاديق کسي بھي مقام پر حق Ùˆ حقيقت سے لمحہ بھر دور نہ ہوئے۔ جب ہر کوئي اموي ميڈيے Ú©Û’ سامنے دم سادھے بيٹھا تھا اور يزيد Ú©ÙŠ اپنے کام ميں مامور اپنے فرائض Ú©ÙŠ انجام دہي ميں ہر وقت پيکار تھيں اس وقت بھي ”ملاقات خدا“ Ú©Û’ عشق سے سرفراز تھے۔

          ادھر ابليسيت اپنے کيل کانٹوں سے ليس کارزار ميں Ù†Ú©Ù„ Ù¾Ú‘ÙŠ اور ادھر يہ الٰہي نمائندے اپنا مقصد پانے ميں آگئے۔ تاريخ Ú©Û’ معدے ميں يہ حقيقت ہضم نہيں ہو رہي تھي کہ لوگ برسوں Ú©Û’ تعصبات Ú©ÙŠ سے ظالم Ùˆ مظلوم ميں تميز نہيں کر پا رہے تھے اور اسلام بہت بے آبرو ہو کر چند افراد ميں محدود ہوکے رہ گيا تو اسلام Ú©Ùˆ آبرو Ú©ÙŠ Ù¾Ú‘ÙŠ تھي اور حسين Ú©Ùˆ اسلام Ú©ÙŠ فکر لاحق تھي کوئي اس کا پرسان حال نہ تھا اميدوں Ù†Û’ رخت سفر پاس Ù†Û’ ڈيرے ڈال ديئے آسمان Ú©Ùˆ کسي ہاتف غيبي Ú©ÙŠ توقع، زمين Ú©Ùˆ طوفانِ نوح کا انتظاردے ايسے ميں اسلام Ù†Û’ اس درندے Ú©ÙŠ پناہ لي جہاں وہ بچپنے سے پل رہا تھا۔ بقول محسن نقوي:

اسلام کھو چکا تھا غبارِ يزيد ميں

کرتا نہ کربلا ميں جو بيعت حسين کي

          کون حسين؟ وہ حسين کہ جو مزاج نبوت تھا۔ جو روحِ شجاعانِ عرب تھا جو وارثِ ضميرِ رسالت تھا جو اعتبارِ موجِ کوثر تھا، جو شمع حريم حيدري تھا، جو خاتمِ حق کا نگين تھا، جو خاورِ صدق Ùˆ صفا تھا، جو منارہٴ عظمت تھا، جو وکيلِ شرافتِ آدم تھا، جو اميرِ خلد جواني تھا، جو آبروئے سلسبيل تھا، جو شاہدِ گلِ پيرہن تھا، جو محورِ گيتي ودگرگوں تھا، جو مہبطِ آوازِ حق تھا۔

          کون حسين؟ وہ حسين کہ جو مورث اقطاب عالم، طبع، پيغمبر حشم، يزدان وقار، صاحب سيف Ùˆ قلم، قنديل اصول، کعبہ حسن Ùˆ قبول، فردوس آغوش بتول، راکب دوش رسول تھا۔

          کون حسين؟ وہ حسين کہ جو شہريار زندگي تھا، جو راتح مرگ تھا، جو گشتگانِ عشق کا سردار تھا، کون حسين؟ وہ کہ جو امير بے عديل تھا، جو صدق خليل تھا، جو مخزنِ جنسِ ہدايت تھا، جو بدر چرخ سرفروش تھا، جو شمع حلقہ شب عاشورا تھا۔



back 1 2 3 4 5 next