عشق کربلائي



عشق نہ ہو تو شرع و دين بت کدہ تصورات

          ہمارے ہاں يہ کلمہ ذرا زيادہ ہي مظلوم واقع ہوا ہے، اس Ú©ÙŠ نا مناسب تشريحات بھي اسي لئے ہيں کہ موجود کا ادراک درست نہيں ہے۔ اسي لئے اس کلمے Ú©Ùˆ اکثراً غريزہ جنسي Ú©Û’ لئے استعمال کيا جاتا ہے اور بعض اوقات عشق Ú©ÙŠ تعريف ميں کہہ بھي ديتے ہيں کہ عشق جسمانيات سے شروع ہو کر جسمانيات Ú©ÙŠ حد تک ہے يعني وہ موجود فقط جسم ہي ہو سکتا ہے يہ بھي آفاس بيل Ú©ÙŠ طرح غريزہ جنسي سے شروع ہوتا ہے ليکن رفتہ رفتہ جسم Ùˆ جسمانيات سے نکلتے ہوئے تلطيف ہو کر جنبہ جسماني گنوا ديتا ہے اور مکمل طور پر ايک حالت روحاني اختيار کر ليتا ہے۔

          ليکن بعض حکماء Ù†Û’ فرمايا کہ عشق Ú©ÙŠ دو قسميں ہيں عشق جسماني Ú©ÙŠ ابتداء Ùˆ انتہاء جسم ہي ہے ليکن عشق روحاني Ú©ÙŠ ابتداء بھي روح (Sout) ہے اور انتہاء بھي اسي پر ہے۔

          يہ وہ منزل عشق ہے جہاں حفظ موجود کا محرکِ عاشق Ú©Û’ رگ Ùˆ Ù¾Û’ ميں دوڑ رہا ہوتا ہے اور يہ احساس کسي بھي لمحے آرام Ùˆ سکون سے بيٹھنے نہيں ديتا۔ اس گوہر Ú©ÙŠ حفاظت ہر بات پہ مقدم نظر آتي ہے خصوصاً جب وہ موجود واجب الوجود (Neecssary Existment) Ú©ÙŠ صورت ميں ہو تو کيا قرار ملے گا؟ کيا سکون نصيب ہوگا؟ حرمان Ú©ÙŠ يہ کسک کسي پل بيٹھنے نہيں ديتي۔ ہر لمحے اسي کاخيال ہر پل دل اس Ú©ÙŠ طرف دوڑے جائے۔امام حسين اور ان Ú©Û’ ساتھيوں ميں يہ برابر Ú©ÙŠ تڑپ تھي۔ ان Ú©Û’ اندر عشق کا سمندر موجزن تھا بالکل اسي طرح کہ جيسے Ú©ÙŠ ضدي اور سرکش لہريں آغوشِ سمندر ميں تلاطم مچانے Ú©Û’ بعد کسي ساحل Ú©ÙŠ دل آويز لورياں سننے Ú©Û’ بعد وہيں اس Ú©ÙŠ گودي ميں سو جاتي ہيں۔ ان Ú©Û’ اندر بھي ايک طوفان خيز اور تلاطم آميز لہريں Ù…Ú†Ù„ رہي تھي جو اپني مراد پانے Ú©ÙŠ خاطر بے قرار ہيں۔ يہ دنيا ان Ú©Û’ لئے زندان تھي جس ميں وہ محبوس تھے۔ يہ جسم Ùˆ جسمانيت سے ماوراء کسي اور حقيقت ميں Ú¯Ù… تھے اور اس حقيقت Ú©Ùˆ کاملاً محسوس کر رہے تھے جو ہدفِ انسانيت تھا۔ ان Ú©ÙŠ منطق ميں اب تلوار Ùˆ شمشير Ú©Û’ زخم Ú©ÙŠ کاٹ معني نہيں رکھتي تھي۔ معشوق Ú©Û’ ديدار Ú©ÙŠ خاطر اس قدر محو تھے کہ کسي شئي ديگر کا احساس نہ تھا۔ ايسے ميں رسول خدا ان Ú©Û’ بارے ميں فرما ديں: لايجدون الم مس الحديد۔۔۔ تو تعجب کيسا؟ اور اسي حقيقت Ú©Û’ اعتراف ميں امير الموٴمنين عليہ السلام جنگ صفين سے واپس پہ فرمايا کہ مناخ رکاب Ùˆ مصارع عشاق شھداً لا يبقھم من کان قبلھم Ùˆ لا بحقھم من بعد Ú¾Ù…Û”

عشق کے اس روحاني سفر ميں موت و حيات کا تصور ہي لغو ہے۔ وہاں حيات مطلق ہے۔ جب عاشق جمالِ يار کي خاطر خود کو کٹوا بھي دے تو يہي اس کے کمال عشق کا تقاضا ہے۔ بقول مير تقي مير:

عشق کي راہ نہ چل خبر ہے شرط

اول گام ترکِ سر ہے شرط

          اس Ú©ÙŠ ذات Ú©ÙŠ تکميل ہي اسي سے ہوتي ہے کہ معشوق Ú©Û’ سامنے خود Ú©Ùˆ قربان کر دے اور مکمل طور پر تلطيف ہو کر اسي Ú©ÙŠ ذات ميں Ú¯Ù… ہو جائے۔ اور اس عالم شھود (The world intution) ميں تصور موت باطل ہے۔ وہ سراسر فنا في الحفظ الموجود ہے۔ بقول علامہ اقبال:

اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا

نقشِ کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا



back 1 2 3 4 5 next