عشق کربلائي



          حسين اسلام Ú©Û’ کرب سے پوري طرح آگاہ تھے کہ اگر آج ابليس Ú©Û’ ان پيروکاروں Ú©Û’ سامنے قيام نہ کيا تو انسانيت پھر سے حيوانيت Ú©ÙŠ طرف لوٹ جائے Ú¯ÙŠÛ” کوئي ذي تنفس نطق حق Ùˆ حقيقت سے آگاہ نہ ہو پائے گا اور ہميشہ ہميشہ Ú©Û’ لئے يہ فکري اضطراب ذہن انساني Ú©ÙŠ پرتوں ميں الجھا رہے گا۔ لہٰذا چشم تاريخ Ù†Û’ وہ منظر ديکھے جو اس سے پہلے کسي بھي طور پر رونما نہ ہوئے تھے۔ جنہوں Ù†Û’ انسان Ú©Ùˆ معراج انساني پہ پہنچا ديا اور اہلبيت Ùˆ يزيد Ú©Ùˆ ہم آہنگ کرکے دنيا Ú©Û’ سامنے بے نقاب (Univeil) کر ديا۔ عشق الٰہي پروان چڑھا، لوگوں Ú©Û’ دلوں ميں اسلام کا وقار اس قدر معتبر ہو گيا کہ قيامت تک يزيديت گالي بن Ú©Û’ رہ گئي۔ انقلاب کربلا Ú©ÙŠ تاثير ذہن انساني پہ تا حشر امر ہو گئي۔ اور اس Ú©ÙŠ بنيادي وجہ (Main resion) خود کربلا والوں کا اپنا عرفان نفس اور اس ذات حقيقي Ú©ÙŠ معرفت اور اس Ú©Û’ نتيجے ميں اِس پروردگار سے عشق Ú©ÙŠ آگ تھي جس Ù†Û’ اس واقعے Ú©Ùˆ ”صبح ازل سے شام ابد تک“ انفراديت بخشي۔ کربلا والوں Ù†Û’ زندگي کا ہر لمحہ لقاء اللہ Ú©ÙŠ خاطر گذارا۔ کيونکہ جس طرح عرض کيا ہے اشارةً اور بھي علل Ùˆ اسباب قيام امام حسين ہو سکتے ہيں ليکن بنيادي وجہ يہ تھي کہ لوگ ذات خداوند قدوس سے دور ہو رہے تھے۔ اور کربلا والوں کا پہلا ہدف يہي تھا کہ اس عرب Ú©Û’ صحراووٴں ميں اس بھٹکي ہوئي انسانيت Ú©ÙŠ انگلي تھام کر دوبارہ سے فراز عبوديت پہ لايا جائے۔ اور يہ اسي صورت ميں ممکن تھا جب يہ خدا سے خود اس قدر قريب ہوں خود ان Ú©Û’ اندر يہ صفت موجود ہو تب جاکے يہ صلاحيت (Preparedess) پيدا ہوتي ہے کہ دوسروں Ú©Ùˆ بھي اس راہ پہ Ù„Û’ آئيں۔ اور کربلا ميں علي اصغر سے Ù„Û’ کر حبيب ابن مظاہر تک سبھي اس صفتِ عظيمہ سے تھے۔

          قرآن مجيد ميں مقصد تخليق انسان بيان ہوا ہے يا ايھا الانسان انک کادحٌ اليٰ ربک کدحاً فملاقيہ۔ ملاقاتِ پروردگار ہي ہدف اصلي تخليق ہے۔ اور يہي وہ شوق تھا جس Ú©Û’ آرام Ùˆ سکون Ú©ÙŠ بجائے آگ پيتے انگارے اگلتے صحرا ميں انھيں نکلنے پر مجبور کر ديا۔ جب حرمان Ú©ÙŠ آگ Ù„Ú¯ÙŠ ہو تو گوشہ نشيني (Seelusion) سے Ù†Ú©Ù„ کر انسان ميدانِ عمل ميں آتا ہے۔ لالہ زار کربلا کربلا بسانے سبدِ Ú¯Ù„ فروش ميں جو پھول سما سکے وہ اس اشتياق Ùˆ عشق ميں پروئے ان موتيوں Ú©ÙŠ آبرو اس قدر Ù¾Ú‘Ú¾ گئي کہ اس سفر ملکوتي (Supernat) ميں وہي راستہ بن گئے سالک Ùˆ سلک ايک ہو گئے۔ (Union of direiplspath)

          يہ آتشِ عشق تھي جو وصالِ يار Ú©Û’ بغير بجھ نہيں سکتي تھي مولائے کائنات Ù†Û’ فرمايا کہ لم تسکن وقتہ الحرمان حتيٰ متحق الوجدان۔

          کربلا والوں Ú©Û’ اس عشق Ú©Ùˆ بيان کرنے Ú©Û’ لئے ايک مثال Ú©Û’ ذريعے مطلب واضح کرنا چاہوں گا۔

          آفاس بيل جسے عشق پيچاں بھي کہا جاتا ہے Ú©ÙŠ خصوصيت يہ ہے کہ اس Ú©ÙŠ جڑيں اور پتے نہيں ہوتے۔ بلکہ فقط ايک نحيف سي ٹہني Ú©ÙŠ صورت ميں پتي ہے۔ زرد رنگ Ú©ÙŠ يہ بيل عموماً بڑے درختوں پہ پائي جاتي ہے۔ کسي بھي درخت تھوڑي سي ڈال ديں تو چند ہي دنوں ميں رنگ کا ايک غلاف پورے درخت پہ نظر آئے گا۔ اس Ú©ÙŠ خوراک ہوا ہے اور اسي درخت Ú©Û’ پتوں وغيرہ سے آتي ہے۔ اس بيل Ú©Û’ طفيل چند دن پہلے جو ايک تناور درخت تھا بالکل سوکھ جاتا ہے۔ عشق بيان کرنے Ú©Û’ لئے يہي مثال دي جاتي ہے۔ تفکرات عرفاء Ùˆ حکماء ذرا مختلف ہيں شبہ مشترک ميں اگر تعبير کريں تو ”العشق Ú¾Ùˆ حفظ الموجود“ کسي بھي شئي موجود Ú©Ùˆ حفظ کرنے Ú©Ùˆ عشق کہيں Ú¯Û’Û”

          مراتبِ عشق کا اندازہ بھي اس موجود Ú©ÙŠ ہمت Ùˆ عظمت (Gmpetance) سے لگايا جا سکتا ہے جتنا وہ موجود عظيم ہوگا اتنا ہي اس کا عشق بھي بلند ہوگا۔ اور اس Ú©ÙŠ حفاظت پہ مامور عاشق بھي اتنا ہي زيادہ کوشاں ہوگا۔ ہر بات پہ اسي کا تذکرہ، اپنے خيالات Ùˆ تدبرات اسي موجود Ú©ÙŠ ذات پہ مرتکز رکھے گا۔ کوئي اور ذکر اسے زيب نہيں ديتا، بقول محبوب خزاں صاحب Ú©Û’:

يا تو اسي کا تذکرہ کرے ہر شخص

يا پھر ہم سے کوئي بات نہ کرے

          بنابر ايں جب حفظ الموجود ہي عشق تو يہ کاملاً ايک عقلي اور شعاري (Pereptive)  ÙØ¹Ù„ ہے۔ نہ لا شعوري۔ يہ تو سراپا حضور ہے جس ميں عقل Ùˆ ادراک (Pereption) Ú©ÙŠ مکمل دخالت ہے۔ بقولِ اقبال:

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولين ہے عشق



back 1 2 3 4 5 next