عشق کربلائي



مزيد فرماتے ہيں کہ:

عشق کے مضراب سے ہے نغمہ تارِ حيات

عشق سے نورِ حيات، عشق سے نارِ حيات

          روح Ùˆ بدن Ú©ÙŠ اس تلچھٹ (Sediment) پہ سجا يہ پيکرِ محسوس جب اپنے عاميانہ تفکر Ú©ÙŠ آغوش ميں پل کر موت Ú©Ùˆ نابودي اور بربادي تصور کرتا ہے تو عشاق اس Ú©ÙŠ عقل پہ ماتم کرتے ہيں کيونکہ عشق Ú©Û’ اس ملکوتي Supirnat سفر ميں ان کا کمالِ وجودي Enistential Enecellece يہي ہے کہ فنا في اللہ ہو جائيں۔ اس لئے موت تو زندگي Ú©Û’ ايک مرحلے سے دوسرے مرحلے ميں منتقل ہونے کا نام ہے۔ اور انتقال کا يہ مرحلہ خداوند متعال اپنے خاص وسائط Ú©Û’ ذريعے انجام ديتا ہے يعني ملک الموت Ú©Û’ ذريعے سے ليکن جب عشق مطلق Absolute ہو جاتا ہے تو وسائط Ú©ÙŠ يہ مساوي قيودات بھي ختم ہو جاتي ہيں۔ اماں Ùˆ مکاں Ú©Û’ يہ عارضٰ پردے ہي چاک ہو جاتے ہيں اس Ú©Û’ بعد منزل اقرب من حبل الوريد آتي ہے۔ عاشق Ùˆ معشوق Ú©Û’ درميان کوئي حجاب نہيں رہتا کسي Ú©Ùˆ دخالت Ú©ÙŠ اجازت نہيں ہے اب مصارع عشاق ميں ملک الموت Ú©Ùˆ جانے Ú©ÙŠ کوئي ضرورت نہيں ہے۔ بلکہ بقول ام ايمن:

فاذا برزت منک العصابة اليٰ مضاجعھا تولّيٰ اللہ قبّض روحھا بنبضہ۔

          اس منزل پہ عاشق Ùˆ معشوق Ú©Û’ اس ارتباط ميں اگر خود خداوند متعال ان برگزيدہ ہستيوں کا خون بھي اپنے پاس رکھوائے کيا تعجب کيسا۔۔۔؟ جس طرح امام حسين Ú©ÙŠ زيار ت ميں ہم پڑھتے ہيں اشھد انّ ذلک سکن في الخلد اسي طرح باقي کربلا والوں Ú©Û’ بارے ميں ابن عباس Ù†Û’ يہ روايت ہے کہ سب قتل امام حسين عليہ السلام Ù†Û’ رسول خدا Ú©Û’ ہاتھوں ميں ايک شيشي ديکھي کہ جس ميں خون جمع کر رہے ہيں ميں Ù†Û’ پوچھا يہ کيا ہے يہ تو آپ Ù†Û’ فرمايا :

ھذہ دماء الحسين و اصحابہ ارفعھا اليٰ اللہ تعاليٰ

          حقيقت ہي يہي تھي کہ ان افراد Ù†Û’ نور حق پيدا کرنے Ú©ÙŠ خاطر قدس جبروت The wored of holy spiritual sealities Ú©ÙŠ طرف اپني باطني Ùˆ فکري توجہات Ú©Ùˆ سميٹے رکھا يہي چيز وہ سبب خاص بني جس Ú©Û’ کربلا والوں Ú©Û’ اندر وہ انقلاب برپا کر ديا جو ہميں بہت سوں ميں نہيں ملتا۔ ان Ú©Û’ ہر گام ميں للھيّة نماياں تھي ان Ú©ÙŠ حيات کا ہر لمحہ قلمرو مادي (Matesra Domain) سے Ù†Ú©Ù„ کر عالم حقيقت Gmmatesial کا حصہ بن چکا تھا روز حق ان پہ آشکار تھا کوئي شئي مادي راہزن بن Ú©Û’ ان Ú©Û’ دل ميں اتر نہيں سکتي تھي۔

          ان کا يہ کمال وجودي Existential excellecee باعث بنا کہ کائنات عالم Ú©Û’ لئے ہدايت بن گئے۔ کربلا Ú©Û’ بعد حق Ùˆ باطل پوري طرح واضح ہمارے سامنے موجود ہے شفاف ہتھيلي Ú©ÙŠ طرح۔ دو ہي تو کردار رہ گئے حسينيت يا يزيديت۔ حسينيت کا نام خدا Ú©ÙŠ طرف Ù„Û’ جانا جبکہ آج بھي يزيديت Ú©ÙŠ پوري کوشش اسي ميں ہے لوگ خدا سے دور رہيں۔ آج بھي کربلا Ú©Û’ کتنے محاز Ú©Ú¾Ù„Û’ ہيں ہمارے لئے اور برسوں سے الجھ رہے ہيں ہم۔ نہ وہ شکست فاش ہو رہے ہيں اورنہ فتح ہمارا مقدر بن رہي ہے۔ معصوم ہوتا ہے ہم ميں اب بھي کوتوہياں ہيں جن کا بر وقت ازالہ نہ کيا گيا تو تباہي Ùˆ بربادي ہمارا مقدر بن سکتي ہے۔ ورنہ جس طرح Ú©Ù„ يوم عاشورہ Ùˆ Ú©Ù„ ارض کربلا تا حشر ہے اسي طرح استغاثہ حسيني Ú¾Ù„ من ناصرٍ عنصرنا بھي تا ابد فضائے امکان ميں گونج رہا ہے لبيک کہنے والا بھي کوئي ہو۔ آخر ميں جوش مليح آبادي Ú©ÙŠ مسدس پيش خدمت ہے:

اے قوم! وہي پھر ہے تباہي کا زمانہ                   Ø§Ø³Ù„ام ہے پھر تيرِ حوادث کا نشانہ

کيوں Ú†Ù¾ ہے اسي شان سے پھر Ú†Ú¾ÙŠÚ‘ ترانہ      ØªØ§Ø±ÙŠØ® ميں وہ جائے گا مردوں کا فسانہ

مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلي ہو                  لازم ہے کہ ہر فرد حسين ابن علي ہو 



back 1 2 3 4 5