کس طرح بغير ديکهے خدا پر ايمان لائيں؟



جیسا کہ اصولِ فلسفہٴ حسی کا بانی ” ا  گسٹ کانٹ“ اپنی کتاب ”کلماتی در پیرامون فلسفہ حسی“ میں کہتا Ú¾Û’:”چونکہ Ú¾Ù… موجودات Ú©Û’ آغاز Ùˆ انجام سے بے خبر ھیں لہٰذا اپنے زمانہ سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ یا اپنے زمانہ Ú©Û’ بعد آنے والی موجودات کا انکار نھیں کرسکتے، جس طرح سے ان Ú©Ùˆ ثابت بھی نھیں کرسکتے،(غور کیجئے گا)

 Ø®Ù„اصہ یہ کہ حسی فلسفہ ØŒ جھل مطلق Ú©Û’ ذریعہ کسی بھی طرح کا نظریہ نھیں دےتا، لہٰذا حسی فلسفہ Ú©Û’ فرعی علوم Ú©Ùˆ بھی موجوات Ú©Û’ آغاز اور انجام Ú©Û’ سلسلہ میں کوئی فیصلہ نھیں کرنا چاہئے ØŒ یعنی Ú¾Ù… خدا Ú©Û’ علم Ùˆ حکمت ØŒ او راس Ú©Û’ وجود کا انکار نہ کریں اور اس Ú©Û’ بارے میں نفی Ùˆ اثبات Ú©Û’ سلسلہ میں بے طرف رھیں ØŒ(نہ انکار کریں اور نہ اثبات) “

ھمارے کھنے کا مقصد بھی یھی ھے کہ ”ماورائے طبیعت دنیا“ کو سائنس کی نگاھوں سے نھیں دیکھا جاسکتا، اصولی طور پر وہ خدا جس کو مادی اسباب کے ذریعہ ثابت کیا جائے خدا نھیں ھوسکتا۔

دنیا بھر کے خداپرستوں کے عقائد کی بنیاد یہ ھے کہ خدا ،مادہ اور مادہ کی خاصیت سے پاک و منزہ ھے، اور اسے کسی بھی مادی وسیلہ سے درک نھیں کیا جاسکتا۔

لہٰذا یہ نھیں سوچنا چاہئے کہ اس دنیا کو خلق کرنے والے کو آسمان کی گھرائیوں میں میکروسکوپ (Microscope) یا ٹلسکوپ کے ذریعہ تلاش کیا جاسکتا ھے، یہ خیال بیھودہ اور بےجا ھے۔

۲۔ اس کی نشانیاں

دنیا کی ھر چیز کی پہچان کے لئے کچھ آثار اور نشانیاں ھوتی ھیں ، لہٰذا اس کی نشانیوں کے ذریعہ ھی اس کو پہچانا جاسکتا ھے، یھاں تک کہ آنکھوں اور دوسرے حواس کے ذریعہ جن چیزوں کو درک کرتے ھیں در حقیقت ان کو بھی آثار اور نشانیوں کے ذریعہ ھی پہچانتے ھیں، (غور کیجئے )

کیونکہ کوئی بھی چیز ھمارے فکر و خیال میں داخل نھیں ھوسکتی اور ھمارا مغز کسی بھی چیز کے لئے ظرف واقع نھیں ھوسکتا۔

مثال Ú©Û’ طور پر:  اگر آپ آنکھوں Ú©Û’ ذریعہ کسی جسم Ú©Ùˆ تشخیص دینا چاھیں اور اس Ú©Û’ وجود Ú©Ùˆ درک کرنا چاھیں تو شروع میں اس چیز Ú©ÛŒ طرف دیکھیں Ú¯Û’ اس Ú©Û’ بعد نور Ú©ÛŒ شعائیں اس پر پڑتی ھیں اور آنکھ Ú©ÛŒ پتلی میں نورانی لھریں ”شبکیہ“ نامی آنکھ Ú©Û’ پردہ پر منعکس ھوتی Ú¾ÙŠÚº تو بینائی اعصاب نور Ú©Ùˆ حاصل کرکے مغز تک پھنچاتے ھیں او ر پھر انسان اس Ú©Ùˆ سمجھ لیتا Ú¾Û’Û”

اور اگر لمس کے ذریعہ(یعنی چھوکر) کسی چیز کو درک کریں تو کھال کے نیچے کے اعصاب انسان کے مغز تک اطلاع پھنچاتے ھیں اور انسان اس کو درک کرتا ھے، لہٰذا کسی جسم کو درک کرنا اس کے اثر (رنگ، آواز اور لمس وغیرہ ) کے ذریعہ ھی ممکن ھے اور کبھی بھی وہ جسم ھمارے مغز میں قرار نھیں پاتا، اور اگر اس کا کوئی رنگ نہ ھو اور اعصاب کے ذریعہ اس کا ادراک نہ کیا جاسکتا ھو تو ھم اس چیز کو بالکل نھیں پہچان سکتے۔

مزید یہ کہ کسی چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا ایک نشانی کا ھونا کافی ھے، مثلاً اگر ھمیں یہ معلوم کرنا ھوکہ دس ہزار سال پھلے زمین کے فلاں حصہ میں ایک آبادی تھی اور اس کے حالات اس طرح تھے، تو صرف وھاں سے ایک مٹی کا کوزہ یا زنگ زدہ اسلحہ برآمد ھونا کافی ھے، اور اسی ایک چیز پر ریسرچ کے ذریعہ ان کی زندگی کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل ھوجائےں گی۔



back 1 2 3 4 next