کس طرح بغير ديکهے خدا پر ايمان لائيں؟



اس بات کے پیش نظر ھر موجود چاھے وہ مادی ھو یا غیر مادی اس کو اثر یا نشانی کے ذریعہ ھی پہچانا جاتا ھے اور یہ کہ ھر چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا نشانی کا ھونا کافی ھے، تو کیا پوری دنیا میں عجیب و غریب اور اسرار آمیز چیزوں کو دیکھنا خدا کی شناخت اور اس کی معرفت کے لئے کافی نھیں ھے؟!

آپ کسی چیز کو پہچاننے کے لئے ایک اثر پر کفایت کرلیتے ھیں اور ایک مٹی کے کوزہ کے ذریعہ چند ہزار سال پھلے زندگی بسر کرنے والوں کے بعض حالات کا پتہ لگاسکتے ھیں، جبکہ خدا کی شناخت کے لئے ھمارے پاس لاتعداد آثار، لاتعداد موجودات اور بے کراںنظم ، جیسی چیزیں موجود ھیں کیا اتنے آثار کافی نھیں ھیں؟! دنیا کے کسی بھی گوشہ پر نظر ڈالیں خدا کی قدرت اور اس کے علم کی نشانیاں ھر جگہ موجود ھیں، پھر بھی لوگ کہتے ھیں کہ ھم نے اپنی آنکھوں سے نھیں دیکھا اور اپنے کانوں سے نھیں سنا، تجربہ اور ٹلسکوپ کے ذریعہ نھیں دیکھ سکے، توکیا ھر چیز کو صرف آنکھوں سے دیکھا جاتاھے؟!

۳۔ دیکھنے اور نہ دیکھنے والی چیزیں:

خوش قسمتی سے آج سائنس نے ترقی کر کے بہت سی ایسی چیزیں بناڈالی ھیں کہ ان کے وجود سے مادیت اور اس کے نتیجہ میں مادی اور الحادی نظریہ کی تردید ھوجاتی ھے، قدیم زمانہ میں تو ایک دانشور یہ کہہ سکتا تھا کہ جس چیز کو انسانی حواس درک نھیں کرسکتے اس کوقبول نھیں کیا جاسکتا، لیکن آج سائنس کی ترقی سے یہ بات ثابت ھوچکی ھے: اس دنیا میں دیکھی جانے والی اور درک ھونے والی چیزوں سے زیادہ وہ چیزیں ھیں جن کو دیکھا اوردرک نھیں کیا جاسکتا، عالم طبیعت میں اس قدر موجودات ھیں کہ انھیں حواس میں سے کسی کے بھی ذریعہ درک نھیں کیا جاسکتا، اور ان کے مقابلہ میں درک ھونے والی چیزیں صفر شمار ھوتی ھيں!

نمونہ کے طور پر چند چیزیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ھیں:

۱۔ علم فیزکس کہتا ھے کہ رنگوں کی سات قسموں سے زیادہ نھیں ھیںجن میں سے پھلا سرخ اور آخری جامنی ھے، لیکن ان کے ماوراء ہزاروں رنگ پائے جاتے ھیں جن کو ھم درک نھیں کرسکتے، اور یہ گمان کیا جاتا ھے کہ بعض حیوانات ان بعض رنگوں کو دیکھتے ھیں۔

اس کی وجہ بھی واضح اور روشن ھے ، کیونکہ نور کی لھروں کے ذریعہ رنگ پیدا ھوتے ھیں، یعنی آفتاب کا نور دوسرے رنگوں سے مرکب ھوکر سفید رنگ کو تشکیل دیتا ھے اور جب جسم پر پڑتا ھے تو وہ جسم مختلف رنگوں کو ھضم کرلیتا ھے اور بعض کو واپس کرتا ھے جن کو واپس کرتا ھے وہ وھی رنگ ھوتا ھے جس کو ھم دیکھتے ھیں، لہٰذا اندھیرے میں جسم کا کوئی رنگ نھیں ھوتا، دوسری طرف نور کی موجوں کی لھروں کی شدت اور ضعف کی وجہ سے رنگوں میں اختلاف پیدا ھوتا ھے اور رنگ بدلتے رہتے ھیں، یعنی اگر نور کی لھروں کی شدت فی سیکنڈ۴۵۸ ہزار ملیارڈ تک پھنچ جائے تو سرخ رنگ بنتا ھے اور ۷۲۷ ہزار ملیارڈ لھروں کے ساتھ جامنی رنگ دکھائی دیتا ھے ، اس سے زیادہ لھروں یا کم لھروں میں بہت سے رنگ ھوتے ھیں جن کو ھم نھیں دیکھ پاتے ۔

۲۔ آواز کی موجیں ۱۶مرتبہ فی سیکنڈ سے لے کر ۲۰۰۰۰ مرتبہ فی سیکنڈ تک ھمارے لئے قابل فھم ھیں اگر اس سے کم یا زیادہ ھوجائے تو ھم اس آواز کو نھیں سن سکتے۔

۳۔ امواجِ نور کی جن لھروں کو ھم درک کرسکتے ھیں انھیں۴۵۸ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ سے ۷۲۷ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ تک کی حدود میں ھونا چاہئے اس سے کم یا زیادہ چاھے فضا میں کتنی ھی آوازیں موجود ھوں ھم ان کو درک نھیں کرسکتے۔

۴۔ یہ بات سب جانتے ھیں کہ چھوٹے چھوٹے جانداروں (وائرس اور بیکٹریز) کی تعدادانسان کی تعداد سے کھیں زیادہ ھیں، اور بغیر کسی دوربین کے دیکھے نھیں جاسکتے ، اور شایداس کے علاوہ بہت سے ایسے چھوٹے جاندار پائے جاتے ھیں جن کو سائنس کی بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعہ ابھی تک نہ دیکھا گیا ھو۔

۵۔ ایک ایٹم اور اس کی مخصوص باڈی اور الکٹرون کی گردش نیز پروٹن کے ذریعہ ایک ایسی عظیم طاقت ھوتی ھے جو کسی بھی حس کے ذریعہ قابل درک نھیں ھے، حالانکہ دنیاکی ھر چیز ایٹم سے بنتی ھے، اور ھوا میں بمشکل دکھائی دینے والے ایک ذرہ غبار میں لاکھوں ایٹم پائے جاتے ھیں۔



back 1 2 3 4 next