تقليد



(حضرت علی ) مجار الانوار جلد ۵ صفحہ ۳۰۵

(قول مولف: ملاحظہ ہو: باب کفر حدیث ۹۲ ۱۷۶

نیز: باب یہ نہ کہو کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ ہوں"

(۲)کس کی تقلید کی جائے

۱۷۰۹۱۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول "نویل للذین یکتبون الکتٰب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عند اللہ۔۔۔" پس صد افسوس ہے ان لوگوں پر اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں پھرکہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔۔۔ (بقرہ /۷۹) کے بارے میں ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق نے پوچھا: "جب یہودیوں کی یہ قوم اپنی کتاب کے بارے میں صرف وہی کچھ جانتی تھی جو اس نے اپنے علماء سے سنا تھا۔ اس کے سوا ان کے ہر کوئی راستہ بھی نہیں تھا تو پھر ان علماء کی تقلید پر اس قوم سے مذمت پر گئی ہے؟ یہودی عوام بھی اپنے علماء کی اسی طرح تقلید کرتے تھے جس طرح ہمارے عوام اپنے علماء کی تقلید کرتے ہیں؟

امام نے فرمایا؛ "ہمارے عوام و علماء اور یہودیوں کے عوام و علماء میں ایک لحاظ سے فرق اور ایک لحاظ سے یگانگت ہے۔ یگانگت اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے عوام کی اپنے علماء کی تقلید کرنے پر مذمت کی ہے جس طرح ان کے عوام کی مذمت کی ہے لیکن فرق ایسا نہیں ہے"

اس نے عرض کیا؛ "فرزند رسول! ذرا اس کی وضاحت فرما پس آپ نے فرمایا "یہودی عوام اچھی طرح جان چکے تھے کہ ان کے علماء صریح جھوٹ بولتے ہیں حرام اور رشوت کا مال کھاتے ہیں، واجب احکام کو سفارش، بخشش اوردوسرے کئی انداز میں تبدیل کر دیتے ہیں وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جو ان کے دین کو اپنائے ہوئے ہیں ان کے حق میں زبردست تعصب کرتے ہیں اور جب تعصب کرتے ہیں تو حق کو اس کے مستحق سے ہٹا کر غیر مستحق کو دے دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے دوسروں پر ظلم کرتے ہیں فعل حرام کا ارتکاب کرتے ہیں یہود عوام کو یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ جو شخص ان جیسے افعال کا ارتکاب کرتا ہے وہ فاسق ہے،۔۔۔۔ وغیرہ اسی بنا پر اللہ سے ایسے لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو یہ سب کچھ جانتے بوجھنے کے باوجود ان کی تقلید کرتے ہیں حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان علماء کی باتوں کو قبول کرنا اور ان کی بیان کردہ گفتگو کی تصدیق کرنا جائز نہیں ہے۔۔۔۔

"اسی طرح ہماری اس امت کے عوام میں کہ جب اپنے فقہائے ظاہری فق، شدید تعصب اور دنیا کے حرام کی طرف جھپٹنے کو اچھی طرح جانتے ہیں، پھر بھی ان کی تقلید کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے عوام میں سے بھی جو شخص ان جیسے فقہاء کی تقلید کرے گا ان یہودیوں کی مانند ہو گا جن کی اللہ تعالیٰ نے فاسق فقہاء کی تقلید کرنے کی وجہ سے مذمت فرمائی ہے۔ البتہ فقہاء میں سے جو شخص اپنے آپ کو دنیوی اغراض سے بچانے والا: دین کا محافظ، اپنے نفسانی خواہشات کا مخالف اور اپنے خالق کے امر کا فرمانبردار ہو تو عوام کو چاہئے کہ اس کی تقلید کریں لیکن ان صفات کے حاصل ہمارے صرف بعض فقہاء ہیں سب نہیں۔

(امام حسن عسکری) احتجاج طبرئی جلد ۲ صفحہ ۲۶۳

۱۷۰۹۲۔ جب تم دیکھو کہ کسی کی ظاہری وضع قطع اور سیرت و صورت اچھی ہے، بولنے میں بہ تکلف خاموشی اختیار کرتا ہے حرکات و سکنات میں نرمی سیکام لیتا ہے، تو صبر کرو اور فوراً اس کے جھانسے میں نہ آ جاؤ، کیونکہ بہت سے ایسے افراد ہیں جنہیں ان کی نیت کی کمزوری اور دل کی ناتوانی اس بات کیلئے عاجز کر دیتی ہے کہ دنیا کو سمیٹ لیں اور حرما کا ارتکاب کریں ایسے لوگوں نے دین کو دنیا کے (سمیٹنے کے) لئے ایک پھندا بنایا ہوا ہے۔ جب اسے دیکھو کہ تکلف کرتے ہوئے مال حرام سے بچنے کا اظہار کر رہا ہے تو اس کے جھانسے میں نہ آ جاؤ کیونکہ مولوق کی خواہشات مختلف ہوا کرتی ہیں۔



back 1 2 3 4 5 next