تقليد



لیکن صحیح معنی میں اور بہترین صورت میں انسان وہ شخص ہے جس نے اپنی خواہشات کو امرِ الہٰی کا پابند بنا دیا ہو اپنی تمام ظاہری و باطنی قوتوں کو رضائے الہٰی کی طرف موڑ دیا ہو سمجھتا کہ حق کو اپنا کر بھی اگر ذلت حاصل ہوتی ہے تو وہ ابدی عزت کا پیش خیمہ ہے اس ظاہری عزت سے بہتر ہے جو باطل کو اپنا کر ہمیشہ کی رسوائی کا موجب بن جاتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس راہ پر قائم رہ کر جو تھوڑی بہت تکلیف ہوتی ہے وہ ابدی نعمتوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ ایسا انسان، بہترین انسان اسی کے ذریعہ اپنے رب تک رسائی کے لئے متوسل ہو جاؤ کیونکہ ایسے شخص کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی اور نہ کوئی طلب ناکام جاتی ہے۔

(امام زین العابدین) مجار الانوار جلد ۲ صفحہ ۸۴ صفحہ ۸۵

تقلید کے بارے میں علمی و اخلاقی بحث

مفسر "المیزان" فرماتے ہیں :

گذشتہ امتوں میں سے قرآن مجید میں جس امت کا زیادہ تذکرہ ملتا ہے وہ بنی اسرائیل ہے اسی طرح تمام انبیاء میں سب سے زیادہ ذکر حضرت موسیٰ بن عمران ہے کہ قرآن مجید میں جن کا نام ایک سو چھتیس مقامات پر کیا گیا ہے، حضرت ابراہیم کے تذکرے بھی دوگنا ہے کیونکہ ان کا نام قرآن پاک میں انہتر مرتبہ لیا گیا ہے۔

اس کی ظاہری وجہ یہ ہے کہ اسلام چونکہ دین حنیف ہے، اس کی بنیادیں نضرایہ توحید پر اٹھائی گئی ہیں اسے موتس حضرت ابراہیم ہیں اسی دینِ اسلام کو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر 1۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ پر کام اور اکمل فرماتا ہے جب کہ ارشاد الہٰی ہے:

"ملة ابیکم ابراھیم ھو ستمکم المسلمین" یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے اس نے تمہارا نام پہلے ہی مسلم (سرتسلیم کرنے والا) رکھا ہے۔ (حج /۷۸)

نبی اسرائیل سخت جھگڑالو قوم تھی وار حق کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے لئے جلد تیار نہیں ہوتی بعینہ اسی طرح کفارِ عرب تھے جن سے رسول اسلام ﷺ کا پالا پڑا تھا۔ اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا "ان الذین کفروا سواء علیھم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لایوٴمنون" یقینا جو لوگ کافر ہیں ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے (بقرہ/۶) بنی اسرائیل کی جس سنگدلی اور جو روجفا کے تذکرے قرآن نے کئے ہیں وہ تب ان کفار میں موجود تھے۔ چنانچہ اگر بنفرا غائر دیکھا تو معلوم ہو گا کہ بنی اسرائیل ایسے لوگ تھے جو مادیت کے دلدادہ تھے اور ہر اس چیز کو قبول کر لیتے تھے جس میں دنیوی لذتیں محسوس انداز میں موجود ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ کسی چیز پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ اسی طرح اس امت کے افراد تھے۔ وہ بھی محسوس چیزوں پر ایمان لانے پر تیار تھے اور مادی لذت و کمال کو قبول کرتے تے۔ آج بھی یہی صورت حال ہے یہی وہ صرت حال تھی جس نے بنی اسرائیل کے عقول و ارادوں کو جس مادہ کے علاوہ کسی چیز کو قبول کرنے سے روکا ہوا تھا۔ یعنی اس چیز کو قبول کیا جات اجو محسوس اور مادی ہو یعنی جس مادہ صحیح قرار دیں اسے وہ قبول کرتے تھے اور جو چیز غیر محسوس اور غیر مادی ہو" خواہ حق ہو، اس کا انکار کر دیتے تھے مادیت پرستی ان میں اس قدر راسخ ہو چکی کہ وہ ہر اس چیز قبول کر لیتے تھے جسے ان کے سردار جو مادیت کے جمال دنیا کی ظاہری شان و شوکت کے دلدادہ تھے اچھا سمجھتے اور اپناتے تھے خواہ وہ حق نہ بھی ہوتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے قول و فعل میں تضاد پید اہو گیا اور وہ ہر طرح کی دوسری اتباع و پیروی کو "اندھی تقلید" کے نام سے موسوم کرتے اس کی مذمت کرنے لگے خواہ وہ حقیقت میں شائستہ ہوتی وہ لوگ دنیا داری پر ہر طرح کی پیروی کو قابل تعریف سمجھتے تھے۔ اگرچہ وہ حقیقت میں ناشائستہ ہوتی۔ لیکن چونکہ ان کی مادی خواہشات کو پورا کرتی تھی لہٰذا ان کے لئے قابل ستائش ہوتی۔ ان کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک طولانی مدت وار عرصہ دراز سے مصریوں کے ذلت آمیز رویہ کے شکار اور قید وبند میں جکڑے رہے تھے۔ اور ان کی طرف سے ڈھائے جانے والے ہر طرح کے مظالم کو برداشت کرتے چلے آ رہے تھے۔ وہ ان کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کئے ہوئے تھے۔ ان کے لڑکوں کو قتل کر دیتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اس طرح وہ ایک عظیم خدائی آزمائش میں مبتلا تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انبیاء الہٰی اور علمائے ربانی کے اور امرونوا ہی کو آسانی سے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ حالانکہ اس میں ان کی دین و دنیا و معاشر معاد دونوں کی بھلائی تھی، (جس کا نمونہ آپ حضرت موسیٰ کے حالات میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عظیم الشان پیغمبر موسیٰ اور دیگر انبیاء کے ساتھ کیا سلوک کیا؟) جبکہ وہ دنیا پرست اور مادیت کے دلدادہ جدید ثقافت حکمرانوں اور دشہوت پرست فرمانرواؤں کی آواز پر فوراً لبیک کہہ دیتے تھے۔

عصر حاضر میں بھی حق و حقیقت اسی مصیبت سے دو چار نہیں اور تہذیب نو کے نام سے مغرب کا دیا ہوا تحفہ دنیا کو حق و حقیقت سے کوسوں دور لے جاچکا ہے۔ اس لئے کہ اس کی بنیاد بھی حس اور مادہ پر رکھی گئی ہے اس سے ہٹ کر کسی اور دلیل کو قبول کرنے پر تیار نہیں ۔ لیکن جہاں محسوس کی جانے والی مادی لذت موجود ہوتی وہاں کسی قسم کی دلیل اختیار نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے انسانی فطرت کی دھجیاں اڑ گئی ہیں اور معارف عالیہ و ااخلاق قافلہ کا جنازہ نکل چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسانیت سقوط کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور انسانی معاشرہ تباہی سے دو چار ہے۔ اب دیکھئے کی اہوتا ہے اس کے برعکس اخلاقیات کی بحث اس کے خلاف فیصلہ دیتی ہے وہ یوں کہ نہ تو ہر دلیل مطلوب و مرغوب ہوتی ہے نہ ہی یہ تقلید ناپسندیدہ و قابلِ مذمت! یہ اس لئے کہ بنی نوع انسان اپنے انسان ہونے کی وجہ سے ہمیشر اپنے ارادی افعال کی وجہ سے جو فکر و ارادے ہر موقوف ہوتے ہیں کمال حیات کی طرف ہیں روا دواں ہے ان افعال کا وجود غور و فکر کے نتیجے میں عمل میں آتا ہے اور یہ غور و فکر ہی ہے جو کمالِ وجودی کی واحد بنیاد ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ انسان کے پاس عملی یا نظری تصدیقات موجود ہوں۔ جن کے ذریعہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ کمالِ وجودی کی منزلوں تک جا پہنچے جو ایسے قضئے ہوتے ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنے انفرادی و اجتماعی افعال کی وجاہات کو معلوم کر سکتے ہیں یا انہیں اپنے ذہن میں حاضر کر کے ان کا اظہار اپنے ہاں کے ذریعہ خارج میں کر سکتے ہیں۔

یہ تو ایک رات ہے اب آئیے دوسری طرف انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ رونما ہونے ولاے واقعات کے بارے میں بحث و تمحیص و تجسس سے کام لیتا ہے جب اس کے ذہن میں کچھ معلومات کو خارج میں اس وقت تک افعال کے ذریعہ وجوود کا جامہ نہیں پہنا سکتا جب تک اس کے ذہن میں اس کی علت موجبہ موجود نہ ہو۔ وہ تصدیق نظری کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک کسی طرح اس کی علت پر اسے اطیمنان نہ ہو۔ چنانچہ یہ ہے انسان کا طریقہ کار ہے جس سے وہ انحراف نہیں کرتا اگر کہیں ہم اس کے خلاف دیکھتے ہیں تو غور وفکر کر کے اس شبہہ کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کی عدت کو پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے اور فطرت نہ تو بدلتی ہے اور نہ ہی اپنے فعل کے خلاف کرتی ہے۔ یہی چیز انسان کو اس کے فطری احتیاجات کی وجہ سے اس کے طاقت سے زیادہ فکری عمل تک جا پہنچاتی ہے انسان کے فطری احتیاجات اس قدر زیادہ وہتے ہیں جنہیں پورا کرنے کی ایک فرد اجد کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ذات پر بھروسہ کر کے اپنی ذاتی طاقت کے بل بوتے پر انہیں حل کر سکے۔ لہٰذا فطرت اسے اجتماعیت اور معاشرتی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتی ہے انسان کا "مدنی الطبع" ہونا اور آپس میں مل جل کر رہنا۔

اسی طرح ضروریات زندی کے لئے کئی ابواب مقرر کئے گئے انہیں معاشرہ کے افراد کے درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے ہر ایک باب کے لئے معاشرہ کے مختلف گروہ و افراد مقرر کئے گئے جنہیں ان کے درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے جس طرح کسی جاندار کے مختلف اعضاء ہوتے ہیں اور ہر ایک عضو کا اپنا کام ہوتا ہے جسے وہ انجام دیتا ہے۔ لیکن اجتماعی فائدہ اسی جاندار ہی کو حاصل ہوتا ہ۔

انسانی ضروریات اپنی نوعیت کے اعتبار سے بڑھتی رہتی ہیں، اور ان کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا رہتا ہے، مختلف علوم و فنون کے مارہن میں سے ان کے لئے متخحدمین۔ سپیشلسٹ۔ افراد کی تربیت کی جاتی ہے ماہرین فن پیدا کئے جاتے ہیں چنانچہ ایک زمانہ تھا جس میں بہت سے علوم و صفتیں صرف ایک حد تک محدود تھیں ان میں ہر ایک علم و فن یا صفت کے لئے صرف ایک ہی فرد کافی ہوتا تھا۔ لیکن آج صورت حال اس لئے مختلف ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ صرف ایک علم یا ایک فن یا ایک صنعت کئی ابواب میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ اور ہر ایک کے کئی شعبے بن چکے ہیں۔ مثلاً قدیم زمانہ میں طب صرف ایک فن ہوتا تھا، لیکن آج یہ کئی فنون کی صورت اختیار کر چکا ہے جن کے لئے صرف ایک فردِ واحد متخصص بن کر کفایت نہیں کر سکتا بلکہ ہر ایک فن کے لئے کئی مختسین کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہی وجہ سے ہے کہ فطری الہام کے انسان کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ انسان کسی ایک شغل کو مستقل طور پر اپنائے اور اس میں خصوصیت حاصل کرے، لیکن دوسرے امور میں ایسے افراد کی اتباع کرے جن کی مہارت اور تخصص کی مہارت اور تخصص قابلِ اعتبار و موجب اعتماد ہوتی ہے۔

اسی لئے معاشرت کے صاحبانِ عقل و بصیر ت کا فیصلہ ہے کہ جو شخص کسی چیز کو تفصیلی دلائل کے ساتھ نہیں جانتا نہ ہی یہ چیز اس کے بس میں ہے۔ تو اسے چاہئے کہ وہ اس فن کے ماہرین اور متفصین کی طرف رجوع کرے اور ان کے بتائے ہوئے اصولوں کی اتباع کرے جو تفصیلی دلائل کے ساتھ اس کا علم رکھتے ہیں اسی کا نام تقلید ہے۔ جیسا کہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنی وسعت کے مطابق کسی چیز کی علت و دلیل کو تفصیل سے جاننا چاہتا ہیل۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جن چیزوں کی تفصیلی دلائل کو نہیں جان سکتا میں ماہرین اور متفصین کی طرف رجوع کرے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ انسان فطری طور پر لاعلمی کی طرف رجحان پیدا نہیں کرتا، بلکہ علم ہی کی طرف راغب و مائل ہوتا ہے۔ اسی لئے فطری طور پر "اجتہاد" ضروری ہو جاتا ہے۔ جب "اجتہاد" اور "تقلید" میں فرق یہ ہے کہ انسان اپنی مقرور بھر کوشش کے ساتھ کسی امر کی علت و اسباب کے بارے میں تفصیلی چھان بین سے کام لیتا ہے "اجتہاد" کہا جاتا ہے بے علم انسان جن امور کو تفصیلی طور پر نہیں جانتا وہ ایسے جاننے والے کی طرف رجوع کرتاہے جو ان امور کو تفصیلی طور پر جانتا ہو اسی رجوع و اتباع کا نام "تقلید" ہے۔ یہ بات بالکل محال ہے کہ نوع انسان میں سے کوئی شخص ایسا مل جائے جو ہر معاملے میں مستقل اور ہر بات کو تفصیل کے ساتھ جانتا ہو جس پر انسانی زندگی کا دلاویدار ہے یہ امر بھی بالکل محال ہے کہ نوع بشر میں کوئی شخص اتباع تقلید کے بغیر ہو اگر کوئی شخص اس کے خلاف دعویٰ کرے یا اسے یہ باور ہو کہ وہ اپنی زندگی میں کسی کو متلا نہیں ہے تو یہ اس کی خود فریبی ہے اور وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔

البتہ ان امور میں تقلید کی جائے گی جن کے علل و اسباب تک کسی ما فن کی رسائی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اجباد بھی ان امور کے بارے میں نہیں کیا جائے گا جن میں نہ تو وار دا ہونے کی اجازت ہے اور نہ ہی انہیں اپنایا جا سکتا ہے۔ ایسے اوصاف رذیلہ کے بارے میں اجتناذ نہیں کیا جائے گا جو معاشرہ کے لئے تباہ کن اور بافضیلت تمدن کے لئے مہلک ہیں غیر مشروط اور مطلق اتباع و پیروی خدا کی ذات کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ خداوندِ متعال ایسا سبب ہے جس میں تمام اسباب کی انتہا ہوتی ہے۔"

(تفسیر المیزان جلد اول صفحہ ۲۰۹ تا صفحہ ۲۱۲



back 1 2 3 4 5