بندو مذهب ميں خدا کا تصور و اجتماعی طبقه بندی



خدا کے بارہ میں کسی نہ کسی طرح کا اعتقاد اور تصور، بلا شبہ ہر دین کی بنیاد و اساس میں داخل ہے یعنی ہر ایک کسی ایسے عامل یا عوامل پر یقین رکھتا ہے جو خلقت میں موثر اور نظام کائنات کو استوار رکھنے کا ذمہ دار نیز عبادت و پرستش کا سزوار ہے ۔لیکن آسمانی اور بشری ادیان میں اس موثر طاقت اور معبود کو مختلف ناموں اور صورتوں کے ساتھ مورد توجہ قرار دیا گیا ہے ۔جہاں تک آسمانی ادیان کا تعلق ہے سبھی اس خدائے واحد و یگانہ پر اعتقاد رکھتے ہیں جس نے پیغمبران وحی کو بھیج کر اپنی عبادت و پرستش اور معرفت کا سامان فراہم کیا ہے وہ خدا جو تمام عالم کا خالق ومدبر اور ہر قسم کے شرک و تجسم اور افسانوی تصورات سے پاک و پاکیزہ ہے اگر چہ اس افسوس ناک حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام سے قبل کے ان آسمانی مذاہب میں بھی خود ان کے ماننے والوں اور دینی رہنماؤں کی دست اندازیوں کے سبب رفتہ رفتہ اس خدائے واحد کو شرک آمیز خرافاتی تصویر کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔چنانچہ ہم یہاں، دنیا کے مشہور و معروف ادیان و مذاہب خدا کے بارہ میں کس کس طرح کا عقیدہ و تصور رکھتے ہیں ان کی طرف اجمالی طور پر اشارہ کر رہے ہیں ۔پہلے ہم ہندو مذہب میں خدا کا تصور پیش کرتے ہیں ۔

ہندو ازم

ہندو حضرات ایک قسم کی تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں جس کو ” تری مورتی “ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے ( یہ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے کافی قریب ہے ) ان تین بڑے خداؤں کا تصور کچھ اس طرح ہے :

۱۔ براہمہ :۔ تخلیق کائنات کا ذمہ دار خدا

۲۔ وشنو:۔ کائنات کے نظم و بقا کا ذمہ دار خدا

۳۔ شیو:۔ کائنات کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار خدا

لیکن تعظیم و تقدیس اور عبادت و پرستش کے اعتبار سے یہ مقدس و محترم عمل اس قدر پست ترین سطح تک پہنچا دیا گیا کہ بہت کم ایسی مخلوق ہوں گی جن کو دلو ایک ہی بار سہی اہل ہنود نے مورد پرستش قرارنہ دیا ہو چنانچہ تاریخ ادیان کی کتب میں ہندو ؤں کے ہزاروں معبود کا ذکر ملتا ہے ۔

اہل ہنود تناسخ و حلول کے عقیدہ کی بنیاد پر یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا کی روح بہت سے حیونات اور حشرات میں داخل ہو کر خدائی کے فرائض انجام دیتی ہے لہٰذا لا تعداد عبادت گاہوں ( مندروں) اور مذہبی رسومات میں بعض حیوانات کو بھی جگہ دی گئی ہے اور ان میں خاص طور سے گائے کو بڑا ہم مقام حاصل ہے اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض ہندو مفکرین اور فلسفیوں نے کبھی اس پوری کائنات پر ایک حقیقت و احدہ کے محیط ہونے اور کبھی وحدت وجود کا تصور بھی پیش کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ فکر اس دین سے قطعی مختلف ہے جو عملی طور پر ہندو عوام کے ہاتھوں میں موجود ہے ۔

اور یہ بات بھی یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ بودھوں اور جینیوں کے یہاں بھی وہ تصورات جو مقدس معبود کے بارے میں پائے جاتے ہیں ان پر مکمل طور پر ہندوؤں کی چھاپ بر قرار ہے حتی کہ خود گوتم بدھ جن کو ابتدا میں ایک مصلح دین کی حیثیت حاصل تھی وقت کے ساتھ مقدس معبود کی صورت حاصل کر چکے ہیں اور مختلف انداز سے ان کے مجسمے ان کے نہ صرف مورد تعظیم و تقدیس قرار پاتے ہیں بلکہ بودھ ان کی عبادت و پرستش بھی کرتے ہیں۔

کنفیوشس کے مکتب فکر کو چوں کہ ابتدا میں مذہبی عنوان حاصل نہیں تھا، لہٰذا ممکن ہے کہ اس کے ماننے والوں نے بھی ہندوؤں یا بودھوں کے اثرا ت قبول کرلئے ہوں ۔ اسی لئے چینی عوام بھی بہت سی دوسری قوموں کی طرح ہر چیز میں روح اور جان کے پائے جانے کے قائل تھے اور خود کو خیر و شر روحوں کے درمیان محصور تصور کرتے اور ان کی تعظیم و تکریم بھی کرتے تھے اور ان کے یہاں تمام مظاہر قدرت و طبعیت حتیٰ کہ اباو اجداد کی بھر پور برستش ہوتی تھی ۔



1 2 3 4 5 next