بندو مذهب ميں خدا کا تصور و اجتماعی طبقه بندی



بعض حالات میں نچلے طبقہ کے افراد کو کسی اعلیٰ طبقہ کی فرد سے ۲۴قدم اور برہمن سے ستر قدم سے زیادہ قریب آنے کی اجازت نہ تھی ۔

پاریا اور ملچھ( ناپاک) افراد نہایت ہی ذلت و کس مپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے انھیں پست ترین کام اور خدمتیں انجام دینی پڑتیں ” منو قانون“ کے مطابق ان کو کتے اور سور کی حیثیت حاصل تھی ․ ہر جگہ حقیر و ذلیل تصور کئے جاتے اور نہ صرف یہ کہ ان کے بدن سے مس ہونا نجاست و ناپاکی کا باعث ہوتا بلکہ ان کا قریب سے گزرجانا بھی نجس ہوجانے کے لئے کافی شمار کیا جا تا تھا۔ بعض سڑکوں اور بازاروں سے ان کا گزرنا بھی ممنوع تھا نہ تو وہ لوگ عمومی کنووٴں سے پانی پی سکتے تھے اور نہ ہی کسی مندر کے قریب سے گزرسکتے تھے۔

البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس غیر انسانی رسم کی طویل تاریخ میں وقتاً فوقتاً اس کے خلاف آوازیں بھی اُٹھتی رہی ہیں اور نتیجہ کے طور پر اصلاحی اقدامات بھی ہوئے ہیں اور آخر کار نئے سماجی تعلقات ،غیر اقوامی سے ارتباط و معاشرت ، صنعتی زندگی کے تقاضوں اور مہاتماگاندی ، نیز دیگر افراد کی کوششوں سے آزاد ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے ۱۹۴۸ئمیں نجاست انسانی کے تصور کو سرکاری طور پر منسوخ کردیا۔

حیات بعد الموت:

انسانی اعمال کے انجام کے سلسلے میں ہندوؤں کا بنیادی نظریہ قانون عمل (کرما) کے ارد گرد گھومتا ہے ۔اس قانون کے مطابق تمام انسانوں کی آئندہ زندگی ان کے کردار یا رفتار و گفتار کے مطابق ہوتی ہے ۔اس دنیا میں جو جیسا کرتا ہے دوسری زندگی اسی کا نتیجہ ہوتی ہے ہر شخص کے اعمال و اقوال و افکار اس کی روح پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں اور پھر وہی اعمال مجسم ہو کرتناسخ کی منزلوں میں ( اینکارنیشن یا ہندوؤں کی زبان میں سام سارا) یعنی نئے وجود کے وقت کسی مناسب شکل میں ڈھل کر اسی مناسبت سے ایک نئے جسد و پیکر میں ظاہر ہوجاتے ہیں ۔خاص طور پر بودھ مذہب کے بانی گوتم بدھ نے اس قانون عمل (کرما) کی توضیح کرتے ہوئے اس کو ایک عمومی اور ثابت و استوار قانون کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے ان کی نظر میں الٰہی عدل و انصاف یا تو بہ و شفاعت جیسی کوئی شئی اصلا وجود ہی نہیں رکھتی خود انسان کے اعمال و افکار ،رد عمل کے طور پر دوسری زندگی میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں ۔

اس منزل میں ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کے بارہ میں بھی وضاحت ضروری ہے۔ اہل ہنود کا خیال و اعتقاد یہ ہے کہ انسان کی آئندہ زندگی کا تعلق اسی دنیا سے ہے اور وہ بھی اس طور پر کہ یکے بعد دیگر ے لامتناہی شکل میں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یعنی ممکن ہے کہ ایک روح ہزاروں بار ایک انسانی پیکر سے دوسرے انسانی پیکر میں طبقات کے فرق کے ساتھ یا پھر کسی حیوان یا پست وجود کے پیکر میں مثلا کتے سانپ یا کیڑے مکوڑے کی شکل میں تبدیل ہوتی رہے اور یہ پیکر وجود اس کو اپنی گزشتہ زندگی کے اعمال کے نتیجہ میں ملتا رہے ۔ ہاں کہیں کہیں استثنائی طور پر ممکن ہے کہ ایک روح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس آواگون (تناسخ) کے چکر سے نجات پاکر اعلیٰ علیین میں برھما کے ساتھ ملحق ہو کر اسی میں فنا ہو جائے یا اس کے بالعکس کسی پست ترین منزل میں پہنج کر تا ابد سرگرداں رہے ۔لیکن جہاں تک عام لوگوں کا مسئلہ ہے یہ قانون تناسخ اور ایک اور نئے روپ میں تجدید حیات ان کے اعمال کا نتیجہ بن کر ظاہر ہوتی رہتی ہے ۔

یہاں اس نکتہ کا ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ ہندومذہب میں اصولی طور پر نجات (نیروان) حاصل کرنے کی جستجو بڑی اہمیت کی حامل ہے اس کو کبھی مقام فنا ،کبھی عالم سکون و خامُشی اور کبھی خواہشوں سے معمور قید و بند حیات سے مکمل طور پر رہائی پاجانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔گوتم بدھ نے اس موضوع پر بڑ ا زور دیا کہ جب انسان اپنے اندر اخلاقی خوبیاں درجہ کمال تک پہنچاکر نیروان حاصل کرلے ،پھر کسی نئے وجود میں پیدا ہونے (تناسخ ) کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔گویا اگر آدمی کامل طور سے مقام تقویٰ و پر ہیز گاری پر فائز ہو جائے تو حقیقت مطلقہ سے ملحق ہو جاتا ہے اور روح فنائے مطلق و ابدی میں غرق ہو جاتی ہے نہیں تو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل ہو کر اس دنیا میں آتا رہے اور تکالیف زندگی برداشت کرتا رہے ۔خواہشات کی غلامی سے آزاد ی حاصل کئے بغیر نیروان حاصل نہیں ہو سکتا ۔

اہل ہنود کی مقدس کتابیں:

ہندوؤں کے اولین کتبی آثار ” وید “ کے نام سے مشہور ہےں جو دانش کے معنی میں ہے ،قدیم ہندوستان کے بارے میں تمام تر معلومات ویدوں کی ہی مرہون منت ہیں متعدد ویدوں میں سے صرف چار وید باقی رہ گئے ہیں :


۱۔ ریگو وید ( حمد و ستائش کے گیتوں کا علم)


۲۔ سام وید ( نغموں کا علم ) وہ موزوںشدہ گیت جو برہمن قربانی اور دینی مراسم کی ادائیگی کے وقت پڑھاکرتے تھے ۔


۳۔ یجوروید ( قربانی کے طریقوں کا علم ) دعا و اوراد اور عبادتوں کا مجموعہ۔
۴۔ اتھر وید ( جادو ٹونے کے قاعدے اور منتر وں کا علم)



back 1 2 3 4 5 next