اسلام اور اقتصادی مشکلات



سوشلزم ھو یا کیپٹلیزم ، دونوں ھی نے مادی مقیاس کو انسانی زندگی کی بنیاد قرار دیا ھے ۔ یہ دونوں انسان کے اخلاقیات و معنویات کی طرف توجہ دئے بغیر صرف اقتصادی و اجتماعی مشکلات پر ریسرچ کرتے رھتے ھیں ۔ ان کی نظر میں دولت و ثروت کی زیادتی ھی اصلی ھدف اور اساسی چیز ھے۔ اس کے ماوراء کسی حقیقت کے قائل نھیں ھیں ۔

اسلام کا نظریھ

 Ø§Ø³Ù„ام Ù†Û’ انسان Ú©Ùˆ تمام جھات سے مورد توجہ قرار دیا Ú¾Û’ Û” مادی زندگی Ú©ÛŒ اصلاح اور درستگی ØŒ ترقی Ùˆ عروج Ú©Û’ ساتھ ساتھ اپنے تمام احکام Ùˆ قوانین میں اخلاقی فضائل اور روحانی کمال Ú©ÛŒ طرف بھی خصوصی توجہ دی Ú¾Û’ Û” اسلام دولت Ùˆ ثروت Ú©Ùˆ اپنے فطری مقاصد Ú©Û’ حصول کا ذریعہ قرار دیتا Ú¾Û’ Û” اسلام Ú©Û’ اقتصادی مکتب Ú©ÛŒ خصوصیت یہ Ú¾Û’ کہ فکر انسانی Ú©Ùˆ ترقی دینے Ú©Û’ ساتھ مادی دنیا سے ماوراء ایک اور دنیا Ú©ÛŒ طرف بھی توجہ کرتا Ú¾Û’ Û”

مغربی دنیا کا قانون سرمایہ دار انہ نظام کی پشت پناھی کرتا ھے یعنی کاریگروں کے مقابلے میں سرمایہ داروں کے منافع کا لحاظ رکھتا ھے ۔روس میں ۔ خود روسیوں کے قول کے مطابق ۔ قانون، مالک و سرمایہ داروں کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاھتا ھے اور سرمایہ داروں کے مقابلے میں کاری گروں کا لحاظ کرتا ھے لیکن نظام اسلام اور اسلامی اصول چونکہ وحی الٰھی سے ماخوذ ھیں اور انسانی قانون بنانے والوں کے افکار وخیالات کا اس میں کوئی دخل نھیں ھے ۔لھذا اسلام میں ایک طبقے کو دوسرے طبقے پر ترجیح نھیں دی گئی اور نہ ایک گروہ کے مفاد کو مقدم کر کے دوسرے گروہ کے اوپر ظلم کیا گیا ھے ۔ اسلام ایسے قوانین کے مجموعے کا نام ھے جو کسی خاص گروہ کی مصلحت کی خاطر نھیں آیا اور نہ کسی مخصوص طبقے کی ھوا وھوس کا پابند ھے ۔ اسلام ایسے قوانین کا نام ھے جس کو خدائے بزرگ نے سب کے لئے بنایا ھے ۔ اسی لئے اسلام میںکسی مخصوص طبقے کی حاکمیت و فرماں روائی کا تصور نھیں ھے اور یھی وجہ ھے کہ عدالت سے انحراف کے اسباب بطور کلی اس میں نھیں ھیں ۔ اسلام کا حاکم کسی خاص گروہ یا طبقے کا نمایندہ نھیں ھے بلکہ وہ خود بھی ملت کی ایک فرد ھے ۔ اس کو یہ حق نھیں ھے کہ کسی مخصوص گروہ کو فائدہ پھنچائے یا کسی خاص طبقے کو نقصان پھنچائے ۔ اسلامی حاکم کے پاس جو اقتدار ھوتا ھے اس کا مقصد صرف اتنا ھوتا ھے کہ قانون الٰھی کو نافذ کر سکے یعنی خدائی قانون کے نافذ کرنے کے علاوہ اس کے پاس کسی قسم کی طاقت و قدرت نھیں ھے ۔

 ÛŒÚ¾ÛŒ وجہ Ú¾Û’ کہ تسلط Ùˆ اقتدار سے پیدا ھونے والے تکبر Ùˆ غرور سے اسلامی حاکم محروم ھوتا Ú¾Û’ کیونکہ وہ خود سمجھتا Ú¾Û’ کہ میرا تعلق سرف اتنا Ú¾Û’ کہ خدا وند عالم Ù†Û’ میرے اور تمام دنیا Ú©Û’ لئے جو مساوی قانون بنایا Ú¾Û’ اس Ú©Ùˆ نافذ کر سکوں Û” ظاھر Ú¾Û’ کہ ایسی صورت میں لوگوں Ú©Ùˆ استقلال واقعی اور کامل آزادی نصیب Ú¾Ùˆ Ú¯ÛŒ اور معاشرے Ú©Û’ افراد عدالت مطلقہ Ú©ÛŒ بناء پر سکون Ùˆ اطمینان حاصل کرسکیں Ú¯Û’ Û”

چونکہ تمام مکاتب فکر میں ضرورت سے زیادہ نقائص موجود ھیں اس لئے سب سے بھتر طریقہ یھی ھے کہ اسلام کے قوانین کو اپنایا جائے مثلاکیپٹلیزم ،یہ شخصی ملکیت کا بے قید و بند قائل ھے اور آزادی مطلق وغیرمحدود شخصی ملکیت کا پرچار کرتا ھے نیزمعاشرے کو یہ حق نھیں دیتا کہ وہ فرد کی بیجا تعدی کی روک تھام کر سکے ۔ اسلام اس کا مخالف ھے بلکہ اسلام سرمایہ دارانہ نظام کے بر خلاف فرد کو لائق احترام تو ضرور سمجھتا ھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے اقتصادی نظام میں معاشرے کی شخصیت کوبھی وسیع مفھوم کے ساتھ قبول کرتا ھے ۔ معاشرے کے لئے بھی اساسی قدر و قیمت کا قائل ھے لیکن اسی کے ساتھ شخصی ملکیت کے قانون کو بھی نظر انداز نھیں کرتا اور شخصی آزادی کا بھی قائل ھے ۔ اسی طرح اسلام کمیونزم( جو رزق مردم کی کلید کو حکومت کے سپرد کردینے کا قائل ھے اور فرد کی قدر و قیمت اور احترام کا سرے سے انکار کرتا ھے ) کی بھی مخالفت کرتا ھے اسلام یہ کبھی نھیں چاھتا کہ لوگ حکومت کے مقابلے میں صرف ایک شکم سیر غلام کے مانند رھیں ۔کمیونسٹوں کا عقیدہ ھے کہ شخصی ملکیت فطری چیز نھیں ھے ۔ یہ لوگ بغیر کسی دلیل کے کھتے ھیں : ابتدائی دور میں شخصی ملکیت کا تصور نھیں تھا ۔ اس وقت لوگ باھمی تعاون و محبت و برادری کے زیر سایہ زندگی بسرکرتے تھے ۔ اس وقت حکومت کمیونزم کے ھاتھ تھی ۔ آج جو شخصی ملکیت کا وجود ھے یہ سب بعد کی پیداوار ھے ۔

مگر سچی بات یہ ھے کہ شخصی ملکیت اکتساب و تربیت کی محتاج نھیںھے بلکہ آدمی کی پیدائش کے ساتھ ساتھ اس کا بھی وجود ھواھے اور براہ راست آدمی کی فطرت سے اس کا تعلق ھے ۔ دیگر فطریخواھشات کی طرح یہ بھی ایک پیدائشی چیز ھے ۔

فیلسین شالہ لکھتا ھے : ”اگر قلمرو مالکیت میں ایسی وسعت پیدا ھو جائے تو پھر اس کے لئے کوئی حد معین نھیں کی جاسکتی ۔ ملکیت کا دائرہ طول تاریخ میں مختلف طریقوں سے بڑھتا رھا ھے ۔ اس کی دلیل یہ ھے کہ فطرت و طبیعت انسان اور جذبھٴ مالکیت کے درمیان بھت قریبی رشتہ ھے انسان فطرتاً یہ چاھتا ھے کہ اپنی ضروریات کو اپنے اختیار میں رکھے کیونکہ جب تک ایسا نہ ھوگا وہ اپنے کو آزاد نھیں سمجہ سکتا ۔ شخصی ملکیت کی تیسری دلیل اخلاق ھے ۔ اخلاقی نقطھٴ نظر سے انسان اپنی سعی و کوشش سے جن چیزوں کو حاصل کرے وہ اس کی ملکیت میں ھونا چاھیں اور اسی شخص کی طرح اس چیز کابھی احترام ضروری ھونا چاھئے ۔شالہ اقتصادی ترقی اور اجتماعی سرمایہ کی پیداوار کی اھم ترین علت شخصی ملکیت کو سمجھتا ھے ۔چانچہ وہ لکھتا ھے : سب سے بڑی دلیل مالکیت خود معاشرے کا نفع ھے ۔ معاشرہ فرد کی محنت کا محتاج ھوتا ھے ۔ کسی بھی کام کے کرنے کےلئے ایک محرک ھونا چاھئے اور مالکیت سے بڑا کوئی محرک نھیں ھو سکتا ۔ معاشرے کا فائدہ اسی میں ھو سکتا ھے کہ لوگ کچہ نہ کچہ پس انداز کرتے رھیں یعنی اجتماعی سرمائے کے اضافے میں مدد کرتے رھیں ۔لھذا معاشرے پر لازم ھے کہ لوگوں کو پس انداز کرنے کا حق دے اور صرف مالکیت کا تصور ھی ایک ایسی چیز ھے جو لوگوں کو کام کرنے اور پس انداز کرنے پر آمادہ کر سکتی ھے ۔ ( ۳)

اسلام اور فطری تقاضا

اسلام نے اپنے قانون میں اس فطری تقاضے کا لحاظ رکھا ھے اور فطرت انسانی کے موافق ھی اپنے احکام نافذ کئے ھیں۔ صحیح اور قانونی راستے سے حاصل کئے ھوئے اموال کو اسلام شخصی مال سمجھتا ھے ۔ اسلام اس نظریہ کو تسلیم نھیں کرتا کہ شخصی ملکیت فطرتاً اور ذاتی لحاظ سے ظلم و ستم کا منبع ھوتی ھے ۔ در حقیقت اس طرز فکر کی علت یہ ھے کہ یورپی ممالک میں شخصی ملکیت اور ظلم و ستم لازم و ملزوم سے رھے ھیں ۔ ان ممالک میں وضع قانون کا حق ھمیشہ سرمایہ دار طبقے کو رھا ھے اسی لئے وھاں کے سارے قوانین ومصالح سرمایہ داری کے محور پر گھومتے ھیں ۔ لیکن اسلام میں وضع قانون کا حق صرف خدا کو ھے ،لھذا کسی طبقے کو کسی دوسرے پر تفوق کا سوال ھی نھیں پیدا ھوتااور نہ اس میں اس کا لحاظ ھوتا ھے کہ ایک مخصوص طبقے کو فائدہ پھونچے اور دوسرے مخصوص طبقے کونقصان پھنچے ۔یھی وجہ ھے کہ جس زمانے میں اسلامی قانون کا نفاذ تھا اس وقت شخصی ملکیت کا وجود تھا مگر اس کے ساتھ ظلم و ستم کا شائبہ تک نہ تھا ۔



back 1 2 3 4 5 next