اسلام اور اقتصادی مشکلات



جن لوگوں نے بھت زیادہ زحمت و مشقت برداشت کر کے کارخانے قائم کئے ھیں اسلام کی نظر میں زبردستی ان سے کارخانوں کو چھین لینا جائز نھیں ھے کیونکہ یہ فعل امنیت اجتماعی اور احترام حقوق افراد، دونوں کا مخالف ھے نیز یہ فعل روح ایجاد کو ختم کر دینے والا بھی ھے ۔ ھاں اجتماعی عدالت کے تحکیم مبانی کے لحاظ سے اور اقتصادی و ملی مصالح و منافع کے لحاظ سے خود حکومت بڑے بڑے صنعتی ادارے بڑے بڑے کارخانے قائم کر سکتی ھے ۔ مختصر یہ ھے کہ اسلام کے اقتصادی نظام نے فرد و اجتماع دونوں کی حیثیت کو بنیادی طور سے مانا ھے اور حیات اقتصادی کی تنظیم اور حل مشکلات کے لئے عدالت اجتماعی کے اساس پر ایک آزاد قانون بنایا ھے جس میں فرد اور معاشرہ دونوں کے مصالح کا بھت ھی دقت نظر کے ساتھ لحاظ رکھا گیا ھے ۔ معاشرے میں شخصی ملکیت کو اساسی چیز مانا ھے اور فطرت کے تقاضوں پر لبیک کھا ھے تاکہ ھر شخص اپنی سعی و کوشش سے وسائل زندگی مھیّا کر سکے اور نفع برداری کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کرے لیکن شخصی ملکیت کو حدود و شرائط میں جکڑ دیا ھے تاکہ لوگوں پر ظلم وستم کے دروازے نہ کھل جائیںاور فرد اپنی آزادی سے غلط فائدہ نہ حاصل کر سکے ۔نیزاجتماع کے مصالح کو برباد نہ کر ڈالے ۔ یقینی طور پر ایسی قید و بند آزادی کے لئے نقصان دہ نھیں ھے کیونکہ معاشرے کی زندگی اور ایسا قانون جو ظلم و ستم سے روکے، لازم وملزوم ھیں اور اس قسم کی پابندی اجتماعی زندگی کی بقاء کی ذمہ دار ھے ۔

اسلام اور شخصی ملکیت

شخصی ملکیت کے سلسلے میں اسلام نے بے لگامی کو قطعاً محدود کر دیا ھے اور اسی کے ساتھ شخصی ملکیت کو قانونی حیثیت بھی بخشی ھے بشرطیکہ وہ مشروع اور صحیح طریقے سے حاصل کی گئی ھو لیکن اگر دولت و ثروت کو غیر فانی اور غیر مشروع طریقے سے حاصل کیا گیا ھے تو پھر اسلام اس پر تسلط کو قبول نھیں کرتا ۔ اسلام نے ظلم و تعدی ،احتکار ، قتل و غارتگری کے ذریعے سے حصول دولت پر پابندی لگا دی ھے اور اس قسم کی دولت کو خلاف شرع سمجھا ھے ۔

اسلام میں شخصی ملکیت کی بنیاد کسی بھی طرح سے سود ، احتکار ، غارت گری ، غصب ، تغلب ، رشوت ، چوری وغیرہ پر نھیں رکھی گئی ،اور کسی کو بھی حق نھیں ھے کہ ان ذرائع سے دولت جمع کرے ۔ اسلام نے مال حلال کے لئے جو قید وبند لگائی ھے اس کا قھری نتیجہ یہ ھوگا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں جو خرابی تھی اسلام میں نہ ھو سکے گی اور اسلامی معاشرہ سرمایہ داری کے ان برے نتائج سے جو نا قابل اجتناب ھیں محفوظ رھے گا ۔

آج کا موجودہ سرمایہ داری نظام شخصی مالکیت کے بر خلاف ھے ۔سرمایہ داری کے سارے نظام کا دار و مدار سود اور احتکار پر ھے کیونکہ ماھرین اقتصاد اس بات پر متفق ھیں کہ سرمایہ داری کا سسٹم شروع میںبھت سادہ اور سود مند تھا ،لیکن تغیرات کے ھاتھوں رفتہ رفتہ داخلی قرضوں پر اعتماد کرتے ھوئے موجودہ صورت میں ظاھر ھوا ھے جس طرح چھوٹی چھوٹی کمپنیوں کا دیوالیہ پن ایک بڑی کمپنی کے وجود کا سبب بنتا ھے اور یہ طریقہ احتکار تک پھونچ جاتا ھے اور اس میں شک نھیں کہ سود اور احتکار سرمایہ داری کی پلید ترین بیماری ھے ۔ اسی لئے اسلام نے ان دونوں چیزوں کو ممنوع قرار دے دیا ھے ۔ یہ سود ھی تو ھے جو بے حساب دولت سرمایہ داروں کی جیب میں انڈیل دیتا ھے اور لوگوں کو محرومیت اور بد بختی سے دو چار کرتا ھے ۔

اسلام کے ذریعے پیش کردہ راہ حل

اسلام نے مختلف طبقوں میں اقتصادی توازن برقرار رکھنے کے لئے اور دولت کو ایک مرکز پر جمع ھونے سے روکنے کے لئے بھت سے طریقے ایجاد کئے ھیں ۔ چند طریقوں کا ذکر کیا جا رھا ھے ۔

۱۔ ٹیکس کا قانون مثلاً لوگوں کو جمع شدہ مال پر خمس ، زکوٰة قسم کے ٹیکس لازم قرار دئے ھیں تاکہ ھر سال مالداروں اور سرمایہ داروں کا مال گھٹتا رھے ۔

Û²Û” انفال یعنی عمومی ثروت Ú©Ùˆ اسلامی حکومت Ú©Û’ سپرد Ú¯ÛŒ میں دے دینا ØŒ مثلا ًجنگلات ØŒ Ù†Û’ زار ØŒ چراگاہ ØŒ بنجر زمینیں ØŒ پھاڑ ØŒ پھاڑوں پر اگے ھوئے درخت ØŒ معدنیات ØŒ موقوفات عامہ ØŒ اموال مجھول المالک ØŒ بغیر جنگ کئے حاصل ھونے والی زمینیں ØŒ کفارات ØŒ لا وارث افراد Ú©ÛŒ میراث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس قسم Ú©ÛŒ چیزیں انفال ( ثروت عمومی ) کھلاتی ھیں Û” اگر چہ ان میں Ú©ÛŒ کچہ چیزیں رسول(ص)  یا امام علیہ السلام سے مخصوص ھیں مگر وہ حضرات ان Ú©Û’ منافع کواپنے اوپر نھیں خرچ کر تے  تھے بلکہ رفاہ عام میں صرف کرتے تھے Û”

۳۔ میراث کا قانون بھی ایک ایسی چیز ھے جو دولت کو متحرک رکھتی ھے اور ھر نسل پر دولت تقسیم ھوتی رھتی ھے ۔



back 1 2 3 4 5 next