اسلام اور اقتصادی مشکلات



۴۔ اضطراری حالت یعنی شخصی مالکیت کا احترام اسلام اسی وقت تک کرتا ھے جب تک اجتماع کسی خطرے سے دوچار نہ ھو اوراگر اضطراری حالت پیدا ھو گئی تو پھر عادل اسلامی حکومت مقررہ شرائط کے ساتھ اپنے اختیارات کو استعمال کر کے معاشرے کو اس خطرے سے بچائے گی ۔ مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت جس وقت بھی مقتضی ھو اور اسلامی اجتماع کا فائدہ ھو تو حکومت شخصی مالکیت میں حسب ضرورت دخل اندازی کریگی ۔اسلامی حکومت کو یہ حق اسی لئے دیا گیا ھے تاکہ ضرورت کے وقت استعمال کر سکے ۔ اسلامی حاکم کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ انگلیوں پر گنے جانے والے افراد کے ھاتھوں میں دولت کو جمع ھوتا ھوا دیکھے اور دوسروں کی محرومی و گرسنگی پر خاموش تماشائی بنا رھے کیونکہ یہ بات اسلامی اصول کے بالکل بر خلاف ھے ۔ آج کی مغربی دنیا میں جس قسم کی سرمایہ داری ھے اسلام اس کو صحیح نھیں سمجھتا ۔ قرآن میں ارشاد ھے : تقسیم مال کے جو طریقے ھم نے معین کئے ھیں وہ صرف اس لئے کہ تمھارے دولت مندوں کے ایک گروہ کے پاس دولت متمرکز نہ ھو جائے ۔(۴)

چونکہ اجتماع کا نقصان عین فرد کا نقصان ھے اس لئے اسلام نے دونوں کے حقوق میں کوئی تعارض نھیںھونے دیاھے ۔ اسی لئے اسلام نے شخصی ملکیت کو محترم شمار کرتے ھوئے اور انسان کی فطری خواھشات کا لحاظ رکھتے ھوئے ، نیز ان تمام باتوں کو باقی رکھتے ھوئے جن کو سرمایہ دار شخصی ملکیت کے لئے ضروری سمجھتے ھیں ، اس بات کی اجازت دی ھے کہ ضرورت کے وقت فرد کے مال سے اجتماع کو فائدہ پھنچایا جا سکتا ھے ۔

اگر چہ اسلام نے سرمایہ داری کے ظلم و ستم کو قانونی طور سے روک دیا ھے مگر پھر بھی صرف قانون بنا دینے پر اکتفا نھیں کیا بلکہ اور طریقوں سے بھی اس پر پابندی لگائی گئی ھے ۔

۵۔ سخاوت سرمائے کو متحرک کرنے کے لئے لوگوں کو راہ خدا میں انفاق و بخشش پر بھت آمادہ کیا ھے اور اس اخلاقی دعوت کو قانون سے ھم آھنگ کر دیا ھے ۔ اس سلسلے میں ایسے مضبوط دستور بنائے ھیں جو عاطفہ انسانی کے لئے شدید محرک ھیں ، ایسے محرک کہ ان کو دیکہ کر کوئی بھی شخص اپنے ھم جنس کے استحصال پر تیار ھی نھیں ھو سکتا ۔

۶۔ فضول خرچی کی مذمت ، اسلام نے ایک گروہ کے ھاتھ میں ثروت جمع ھو جانے کے جو نتائج ھوتے ھیں ( یعنی سرمایہ داری کے نتائج ) ان نتائج کی شدت سے مخالفت کی ھے تاکہ سرمائے میں جمود نہ ھونے پائے مثلا فضول خرچی ، عیاشی ، خوش گزرانی یہ چیزیں سرمایہ داری کی دین ھیں اور اسلام نے ان چیزوں سے شدت کے ساتھ منع کیا ھے ۔

۷ ۔ بخل کی مذمت ، اسی طرح بخل کی مذمت کر کے مالداروں کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب و تشویق دلائی ھے تاکہ دولت و ثروت چند ھاتھوں میں منجمد ھو کر نہ رہ جائے ۔

۸۔ اجرت روکنے کی ممانعت ، اسی طرح اسلام نے شدت کے ساتھ اس بات سے بھی روکا ھے کہ خبردار مزدوروں کی مزدوری نہ روکو ، کیونکہ اس سے عمومی فقر کا اندیشہ ھے ۔ اسلام کی یہ روحی دعوت انسان و خدا کے درمیان ارتباط کاکام دے گی اور انسان کے ضمیر میں ایسے پاکیزہ احساسات پیدا ھوں گے جن کی وجہ سے انسان اخروی جزا اور رضایت پروردگار عالم کا خواھش مند ھو جائے گا اور جب یہ خواھش بڑھے گی تو اس کے حصول کے لئے تمام دولت و ثروت اور تمام لذتیں بیکار ھو جائیں گی کیونکہ بد نیتی ،حرص ، بے عدالتی ، ستم گری ، یہ ساری چیزیں قیامت پر ایمان نہ ھونے اور خالق و مخلوق کے رابطہ کے منقطع ھونے کی وجہ سے ھوتی ھیں ۔ اورجب خالق سے رابطہ قائم ھو جائے گا تو مرضی ٴ خدا کے حصول کے لئے مال بے قدر و قیمت ھو جائے گا اس کے نتیجے میں دولت میں جمود نھیں پیدا ھو گا ۔

تاریخ میں کھیں نھیں ملے گا کہ جھاں کھیں بھی عبادت الٰھی میں انحراف ھوا ھو اس کی علت آدمی کے افکار و پندار میں انحراف نہ ھو ، اور انسانوں کے آپسی روابط میں کو تا ھی نہ ھو ، یہ تو ممکن ھی نھیں ھے کہ کوئی شخص خدا سے بھت قریب ھو اور اس کے بعد وہ ظلم و ستم کا ارتکاب کرے اور دولت جمع کرنے کے لئے بندگان خدا پر ظلم و جور کرے ۔

اسلام میں فرد و اجتماع کے منافع کی نگرانی حکومت پر رکھی گئی ھے ۔ حکومت کا فریضہ ھے کہ غلط آزادی سے روکے اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اسلامی قوانین کو نافذ کرے ۔ اجتماع کے اندر اخلاقی فضائل کے نشر کرنے اور نگرانی کے علاوہ بھی حکومت پر لازم ھے کہ معاشرے کو ان تمام انحرافات و پلیدگیوں سے روکے جن سے تمام افراد کا فائدہ ھو اور نتیجے میں فرد کی زندگی ایک فعال عنصر کے مثل ھو جائے ۔

اسلامی نظام جھاں سرمایہ داری بلاک کے نقصانات سے پاک و صاف ھے وھیں کمیونزم سے بھی زیادہ بھتر اور عادل تر ھے ۔ اسلام نہ تو دائیں بازو کی طرف مائل ھے اور نہ بائیں بازو کی طرف ، بلکہ سرمایہ داری اورکمیونزم دونوں سے کھیں بالاتر ھے ۔ اس میں اس کی بھی صلاحیت ھے کہ مشرق و مغرب دونوں میں توازن بر قرار رکھے ۔



back 1 2 3 4 5 next