اسلام اور اقتصادی مشکلات



ایک قابل توجہ چیز یہ ھے کہ اسلام بدیع نظام ھے ۔ اس نے دنیا کو اجتماعی عدالت کے مفھوم سے روشناس کرایا اور اقتصادی عوامل کے وزن و اعتبار کو سمجھایا ۔ اسلام کی نظر میں انسان مجبوریوں کا غلام نھیں ھے بلکہ اس دنیائے رنگ و بو میں انسان ھی تنھا فعال و مثبت قوت ھے جو اقتصاد کے جبری تحولات کا بندھٴ بے دام ھونے کے بجائے اپنے ارادے و اختیار سے اپنے اقتصاد کی بنیاد رکھتا ھے ۔ دیگر مذاھب کے مقابلے میں اسلام کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ھے کہ اس میں جبری تحول کا وجود نھیں ھے ۔

اس دور کے مفکرین و فلاسفہ کاایک بھت بڑا گروہ مثلاً ویلیم جیمس (WILLIAMJAMES)،امریکی فلسفی ھیرو لڈلاسکی (HAROLDLASKI)،جان اسٹریچی( JOHN STRACHEY)،برٹرانڈر اسل ( BERTRAND RUSSELL)،والٹرلپ مین (WALTER LIPPMANN) اور اسی قسم کے دوسرے سر برآوردہ مفکرین نے سرمایہ داری اور کمیونزم دونوں پر اعتراضات کئے ھیں اور ھر ایک نے اپنی فکر و نظر کے مطابق ایک معتدل راستہ بنانا چاھا ھے۔یہ لوگ کھتے ھیں کہ کمیونزم افراد کی حریت، فطری آزادی ، ارادہ و اختیار کو سلب کرتا ھے اور تمام شخصی و اجتماعی امور میں حکومت کو حاکم مطلق مانتا ھے ۔ اس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ فرد کی شخصیت اور اس کی ابتکاری صلاحیتیں زنگ آلود ھو جاتی ھیں اور فردی تکامل ، رشد و ترقی سے رک جاتا ھے ۔ اسی طرح سرمایہ داری میں یہ خرابی بھی ھے کہ فردی آزادی افراط کی حد تک پھونچ جاتی ھے ۔ اجتماعی ھم آھنگی کو ضرر پھنچاتی ھے ۔ سرمایہ داروں کا ایک گروہ تمام منابع ثروت ، دستگاہ تولیدی پر قابض و مسلط ھو جاتا ھے اور لوگوں کو اپنے ارادے کا تابع بناتا ھے نیز سیاست و حکومت پر اپنا پورا پورا اثر و رسوخ قائم کر لیتا ھے ۔

اس لئے بشریت کے لئے ایک تیسرے راستے کی ضرورت ھے جو دونوں کے افراط و تفریط سے محفوظ ھو اور فرد و اجتماع کے منافع کو محفوظ رکھتا ھو لیکن کیا ساری دنیا کے فلاسفہ و مفکرین جو آج کے ناقص سسٹم کو باقاعدہ سمجہ چکے ھیں اسلام سے بھتر کوئی راستہ بتا سکتے ھیں ؟ جس کو اسلام نے آج سے چودہ سو سال پھلے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا ۔ اسلام ھی ایک ایسا معتدل مذھب ھے جو ایک طرف تو فرد کو معقول آزادی عطا کرتا ھے اور دوسری طرف سرمایہ داری کے سر کش اونٹ کو نکیل لگاتا ھے اور بالآخر انسان کو ایسے راستے پر لگا دیتا ھے جو بشریت کو سرگردانی اور بد بختی سے نجات دے سکتا ھے ۔

اسلامی نظام نے اپنے تمام دور حکومت میں اسلامی معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کیا ھے اور اجتماعی زندگی چاھے وہ مسلمانوں کی ھو یا غیروں کی ، کو بھت ھی وسیع پیمانے پر منظم کیا ھے ۔ اسلامی معاشرہ اپنے طول تاریخ میں کبھی وضع قانون کے سلسلے میں دوسروں کا محتاج نھیں رھا ھے اسی طرح آج بھی اس زمانے کے تمام تحولات کے با وجود دنیا کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ھے اور اسلامی معاشرے کی رھبری کر سکتا ھے اور اس کی ضرورتوں کا صحیح جواب دے سکتا ھے ۔

اسلام ھی وہ آئین ھے جس نے مادی نیاز مندیوں اور روحانی ضرورتوں ( دونوں ) کو خصوصی طور پرمورد توجہ قرادیا ھے ۔ زندگی کے تمام شعبوں میں ایک نادر اور متوازن قانون وضع کیا ھے ۔ اسلام ھی وہ مذھب ھے جو زندگی سے پوری ھم آھنگی رکھتا ھے ۔جن میں کبھی کھنگی پیدا نھیں ھو سکتی ۔

دنیائے بشریت نے جن مبادی، اصول کو پھچانا ھے ان میں سب سے محکم اور پیشرو اسلام کے مبادی و اصول ھیں ۔ اور اس کے قوانین انسانی نقطھٴ نظر سے تمام دیگر تعلیمات سے برتر اور آسان ترھیںاگر اسلام کے مبادی و اصول کو دوسرے مکاتب فکر کے مبادی و اصول کے مقابلے میں دیکھاجائے تو یہ حقیقت بھت زیادہ واضح ھو جاتی ھے کہ خدائی قوانین انسانی خود ساختہ قوانین کے مقابلے میں کھیں زیادہ برتر و بالا تر ھیں ۔

دانش کدہ حقوق پیرس نے ۱۹۵۱ءء میں ایک ھفتہ فقہ اسلامی کی تحقیق کا منایا تھا ۔ ذمہ داروں نے دنیا کے علمائے اسلام کو فقہ اسلامی کے سلسلے میں چند موضوعات پر خاص طور سے اظھار خیال کی دعوت دی تھی ۔جن موضوعات پر اظھار خیال کی دعوت دی گئی تھی وہ حسب ذیل ھیں :

۱۔ فقہ اسلامی میں مالکیت کے اثبات کے طریقے ۔

۲۔ اجتماعی اور عمومی مصالح کے پیش نظر املاک خصوصی کے ضبط کر لینے کے شرائط اور ان کے مقامات کی نشان دھی

۳۔ مسئولیت جنائی

۴۔ فقہ اسلامی کے مختلف مکاتب فکر کا تقابل ۔

پیرس کے مرکزی و کلاء کاسربر آوردہ رئیس جو اس کانفرنس کی صدارت کر رھا تھا اس نے اختتام کانفرنس پر اپنے خیالات کا اظھار اس طرح کیا :مجھے نھیں معلوم کہ میں پھلے جو حقوق اسلامی کے جمود اور موجودہ دور کے جدید مسائل میں اس کی عدم صلاحیت کے بارے میں سنا تھا اور آج کی کانفرنس میں جو کچہ میں نے سنا ھے اور سمجھا ، اس کو میں کیونکہ کر جمع کروں ! اس کانفرنس میں یہ بات یقینی طور پر ثابت ھو گئی کہ حقوق اسلامی میں اچھی خاصی گھرائی ھے اور یہ بھت زیادہ وسیع ھیں ۔ ان میں اس بات کی گنجائش ھے کہ موجودہ دور میں پیدا ھونے والے مسائل کا مثبت اور اطمینان بخش جواب دے سکیں ۔ فقہ اسلامی کا ھفتہ جب ختم ھوا تو اس نے اسلام کے بارے میں اپنی یہ رائے ظاھر کی : فقہ اسلامی کے اندر یقینی طور پر ایسی صلاحیت موجود ھے کہ جو موجودہ دور کے منابع قانون گزاری کو پورا کر سکے ۔ فقہ اسلامی کے مختلف مذاھب کے اقوال و آراء کے اندر حقوقی سرمائے اتنے زیادہ ھیں کہ تعجب ھوتا ھے ۔ ان آراء و اقوال کے پیش نظر قطعی طور پر فقہ اسلامی کے اندر یہ صلاحیت موجود ھے کہ وہ آج کی زندگی کی جملہ ضروریات کا مثبت جواب دے سکے ۔

حوالھ:

۱۔ اقتصادنا ج۲ ص ۲۱۶

۲۔یونائیٹڈ پریس انٹر نیشنل ۔۲۲/ فروری ۴۷ءء

۳۔تاریخ مالکیت ص ۹۴

۴۔سورہ حشر/ ۷

 



back 1 2 3 4 5