نيکيوں سے مزين هونا اور برائيوں سے پرهيز کرنا



رات کا اندھیرا بھی انسان کے لئے مفید ھے جو اس کو آرام کرنے پر مجبور کرتا ھے، لیکن چونکہ رات میں بھی کبھی روشنی کی ضرورت ھوتی ھے، بھت سے لوگ وقت نہ ھونے یا گرمی کی وجہ سے رات میں کام کرنے پر مجبور ھوتے ھیں یا بعض مسافر رات کو سفر کرتے ھیں ان کو روشنی کی ضرورت ھوتی ھے، تو اس ضرورت کے تحت خداوندعالم نے چاند او رستاروں کو خلق فرمایا ھے تاکہ وہ اپنی نور افشانی سے خدا کی مخلوق کے لئے آسائش کا سامان فراھم کرےںاور اپنی منظم حرکت کے ذریعہ مسافروںکو راستہ کی طرف راہنمائی کریں اور کشی میں سوار مسافرین کو راستہ بھٹکنے سے روکے رھیں۔

ستاروں کی دو قسم ھوتی ھیں، ایک ثابت ستارے جو ایک جگہ اپنے معین فاصلہ پر رھتے ھیں، اور دوسرے ستارے گھومتے رھتے ھیں ایک برج سے دوسرے برج کی طرف جاتے ھیں ، یہ ستارے اپنے راستہ سے ذرہ برابر بھی منحرف نھیں ھوتے، ان کی حرکت کی بھی دو قسمیں ھیں: ایک عمودی حرکت ھوتی ھے جو دن رات میں مشرق سے مغرب کی طرف انجام پاتی ھے، اور دوسری اس کی اپنی مخصوص حرکت ھوتی ھے، اور وہ مغرب سے مشرق کی طرف ھوتی ھے، جیسے اگر ایک چیونٹی چکّی کے پاٹ پر بیٹھ کر بائیں جانب حرکت کرے درحالیکہ چکّی داہنی جانب چلتی ھے، لہٰذا چیونٹی کی دو حرکت ھوتی ھيں ایک اپنے ارادہ سے اور دوسری چکّی کی وجہ سے، کیا یہ ستارے جن میں بعض اپنی جگہ قائم ھیں اور بعض منظم طور پر حرکت کرتے ھیں کیا ان کی تدبیر خداوندحکیم کے علاوہ ممکن ھے؟ اگر کسی صاحب حکمت کی تدبیر نہ ھوتی تو یا سب ساکن ھوتے یا سب متحرک، اور اگر متحرک بھی ھوتے تو اتنا صحیح نظم و ضبط کھاں پیدا ھوتا؟

ستاروں کی رفتار انسانوں کے تصور سے کھیں زیادہ ھے، اور ان کی روشنی اس قدر شدید ھے کہ اس کو دیکھنے کی تاب کسی بھی آنکھ میں نھیں ھے ، خداوندعالم نے ھمارے اور ان کے درمیان اس قدر فاصلہ قرار دیا ھے کہ ھم ان کی حرکت کو درک نھیں کرسکتے، اور نہ ھی ان کی روشنی ھماری آنکھوں کے لئے نقصان دہ ھے، اگر اپنی مکمل رفتار کے ساتھ ھم سے نزدیک ھوتے، تو ان کے نور کی شدت کی وجہ سے ھماری آنکھیں نابینا ھوجاتیں، اسی طرح جب پے در پے بجلی کڑکتی وچمکتی ھے آنکھ کے لئے نقصان دہ ثابت ھوسکتی ھے، جس طرح سے اگر کچھ لوگ ایک کمرہ میں موجود ھوں اور وھاں پر تیز روشنی والے بلب روشن ھوں اور اچانک خاموش کردئے جائیں تو آنکھیں پریشان ھوجاتی ھيں اور کچھ دکھائی نھیں دیتا۔

اے مفضل! اگر رہٹ کے ذریعہ کسی کنویں سے پانی نکال کر کسی باغ کی سینچائی کی جائے، عمارت، کنویں اور پانی نکالنے کے وسائل اس قدر منظم اور قاعدہ کے تحت ھوں کہ باغ کی صحیح سنچائی ھوسکے ، اگر کسی ایسی رہٹ کو دیکھے تو کیا انسان کہہ سکتا ھے کہ یہ خود بخود بن گئی ھے، اور کسی نے اس کو نھیں بنایا ھے اور کسی نے منظم نھیں کیا ھے، یہ بات واضح ھے کہ عقل سلیم اس کے دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرتی ھے کہ ایک ماھر اور ھوشیار شخص نے اس رہٹ کو اس اندازسے بنایا ھے، اور جب انسان پانی نکالنے والی ایک چھوٹی سی چیز کو دیکھنے کے بعد اس کے بنانے والے کی طرف متوجہ ھوجاتا ھے تو پھر کس طرح ممکن ھے کہ ان تمام گھومنے والے اور ایک جگہ باقی رہنے والے ستاروں، شب و روز، سال کی چار فصلوں کو حساب شدہ دیکھے جبکہ ان میں ذرا بھی انحراف اور بے نظمی نھیں پائی جاتی تو کیا انسان اس قدر عظیم اور عجیب و غریب چیزوں کو دیکھ کر ان کے پیدا کرنے والے کو نھیں پہچان سکتا؟[7]

ایک شخص حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضرھوکر عرض کرتا ھے: مجھے علم کے عجائبات سکھادیجئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا: کیا تجھے اصل علم کے بارے میں کچھ خبر ھے جو عجائب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاھتا ھے؟ تو اس نے کھا: یا رسول اللہ! اصل علم کیا ھے؟ تو حضرت نے فرمایا: معرفت خدا، اور حق معرفت، اس نے کھا: حق معرفت کیا ھے؟ آپ نے فرمایا: خدا کی مثل و مانند اور شبیہ نہ ماننا، اور خدا کو واحد، احد، ظاھر، باطن، اول و آخر ماننا اور یہ کہ اس کا کوئی کفو و نظیر نھیں ھے، اور یھی معرفت کاحق ھے۔[8]

پورے قرآن کریم میں اس مسلم اور ھمیشگی حقیقت پر توجہ دلائی گئی ھے کہ وہ حقیقت اصل جھان اوراس دنیا کو پیدا کرنے والے اور اس کو باقی رکھنے والی کی ھے، انسان کے حواس کو ظاھری آنکھوں سے درک نھیں کیا جاسکتا، لہٰذا غیب کھا جاتا ھے، اور یہ تمام موجوات فنا ھونے والی ھیں لیکن اس کی ذات باقی ھے ، نیز یہ کہ تمام موجوات کے لئے آغاز و انجام ھوتا ھے لیکن اس کے لئے کوئی آغاز اور انجام نھیں ھے، وھی اول ھے اور وھی آخر ۔

قرآن کریم کے تمام سوروں اور اس کی آیات میں اس حقیقت کو ”اللہ تعالیٰ“ کھا گیا ھے، اور ھر سورے میں متعدد بار تکرار ھوا ھے، اور تمام واقعیات اور تمام مخلوقات اسی واحد قھار کے اسم گرامی سے منسوب ھیں ۔

ھم جس مقدار میں خدا کی مخلوقات اور متعدد عالم کو ایک جگہ ضمیمہ کرکے مطالعہ کریں تو ھم دیکھیں گے:

یہ تمام مجموعہ ایک چھوٹے عالم کی طرح ایک نظام کی پیروی کرتا ھے یھاں تک کہ اگر تمام وسیع و عریض عالم کو جمع کریں اور انسانی علم و سائنس کے جدید وسائل جیسے ٹلسکوپ "Telescop"وغیرہ کے ذریعہ کشف ھونے والی چیزوں کو ملاحظہ کریں تو جو نظام اور قوانین ایک چھوٹے نظام میں دیکھے جاتے ھیں ان ھی کو مشاہدہ کریں گے، اور اگر عالَموں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تجزیہ و تحلیل کریں یھاں تک کہ ایک چھوٹے سے ”مولکل“"Molecule" (یعنی کسی چیز کا سب سے چھوٹا جز )کو بھی دیکھیں گے تو ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس کا نظام اس عظیم جھان سے کچھ بھی کم نھیں ھے، حالانکہ یہ تمام موجودات ایک دوسرے سے بالکل الگ ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6