بد گمانى



بد گمانى کے برے اثرات صرف روح تک ھى محدود نھيں رھتے بلکہ جسم پر بھى اس کے اثرات مرتب ھوتے ھيں ۔ اس کي بيماريوں کا علاج مشکل ھو جاتا ھے ۔ ايک عظيم طبيب کھتا ھے : جو شخص ھر ايک سے بد گمانى رکھتا ھو اورھر چيز کے بارے ميں غلط نظر يہ رکھتا ھو اس کا علاج کرنا اس سے کھيں زيادہ مشکل ھے جتنا دريا ميں خود کشى کي نيت سے چھلانگ لگانے والے کو بچانا مشکل ھے ۔ جو شخص ناراضگيوں اور ھيجان کے درميان زندگى بسر کرتا ھو اس کو دوا دينا ايسا ھى ھے جيسے کھولتے ھوئے روغن زيتون ميں پانى ڈالنا اس لئے کہ دوا کا اثر مرتب ھونے کے لئے يہ بھي ضرورى ھے کہ روح اعتمادکى مالک ھو اور وہ اپنے سکون فکر کي حفاظت کر سکتا ھو ۔

بد گمان شخص کے اندر کنارہ کشى دوسروں کے داتھ مل جل کر رھنے سے اجتناب کے اثرات با قاعدہ مشاھدہ کئے جا سکتے ھيں اور اسى نا پسنديدہ عادت کے تحت وہ شخص اپنے اندر استعداد ترقى کو کھو بيٹھتا ھے اور اس کا نتيجہ يہ ھوتا ھے کہ وہ ناپسنديدہ زندگى بسر کرنے پر مجبور ھو جاتا ھے ۔ خود کشى کى ايک علت فکر و روح پر بد گمانى کا مسلط ھو جانا بھى ھے اور اس قسم کے نا قابل بخشائش گناہ کا ارتکاب اسى وجہ سے کيا جاتا ھے ۔

اگر آپ اپنے معاشرہ پر نظر ڈاليں تو معلوم Ú¾Ùˆ گا کہ لوگ جو ايک دوسرے Ú©Û’ بارے ميں گفتگو کيا کرتے Ú¾ÙŠÚº وہ سب بغير مطالعہ بغير غور Ùˆ فکر اور بد گمانى Ú©Ù‰ وجہ سے ھوتى Ú¾Û’ Û” اور اسى Ú©Û’ داتھ داتھ ان Ú©Ù‰ قوت فيصلہ بھى کمزور ھوتى Ú¾Û’ ليکن پھر بھى صحيح Ùˆ اطمينان بخش تشخيص سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ اپنا حتمى فيصلہ دے ديتے Ú¾ÙŠÚº Û”  ايسے لوگ بلا تصور Ú©Ù‰ تصديق Ú©Û’ قائل ھوتے Ú¾ÙŠÚº Û” کبھى ان Ú©Ù‰ گفتگو ميں شخصى غرض بھي نماياں ھوتى Ú¾Û’ اور ÙŠÚ¾Ù‰ سب سے بڑا وہ عيب Ú¾Û’ جس Ú©Ù‰ وجہ سے رشتہ الفت Ùˆ محبت ٹوٹ جاتا Ú¾Û’ Û” اتحاد قلبى ختم Ú¾Ùˆ جاتا ايک دوسرے پر اعتماد کا سلسلہ نابود Ú¾Ùˆ جاتا Ú¾Û’ اوران Ú©Û’ اخلاقيات تباہ Ùˆ بر باد Ú¾Ùˆ جاتے Ú¾ÙŠÚº Û”

بھت سى ايسى عداوتيں اور دشمنياں جن کا نقصان افراد و اجتماع کے لئے نا قابل جبران ھوتا ھے وہ ان خلاف واقع بد گمانيوں کي پيدا وار ھوتى ھيں ۔ معاشرے کے مختلف طبقات ميں بد گمانى رخنہ اندازى کرتى ھے ۔ انتھا يہ ھے کہ يہ بد گمانى دانشمندوں اور فلسفيوں کو بھى متاثر کر ديتى ھے ھر قوم و ملت کے مختلف ادوار ميں ايسے دانشمند پيدا ھوئے ھيں کہ اسى بد گمانى کى وجہ سے ان کے طرز تفکر ميں گھرى تاريکى پائى جاتى ھے اور يہ حضرات علم و دانش کے سھارے ھميشہ جامعہ ٴ بشريت کى خدمت کرنے کے بجائے نظام آفرينش ميں نقد و تبصرہ کر کے اسي کى عيب جوئى کرتے رھے ھيں اور اس طرح ان لوگوں نے اپنے مسموم افکار غلط منطق کے ذريعہ معاشرے کى روح کو مسموم بنا ديا ۔ مبادى اخلاق بلکہ مباديٴ عقائد کو بھى مورد ِ استھزا قرار ديا ۔ بعض فلسفيوں ميں بد گماني اتنى شديد ھو گئى تھى کہ انھوں نے انساني آبادى کى بڑھتى ھوئى تعداد اور فقر و فاقہ کے خوف سے وحشت زدہ ھو کر انسانى نسل کو محدود کرنے کے لئے ھر چيز کو جائز قرار دے ديا يھاں تک کہ انسانى آبادى کو کم کرنے کے لئے وحشيانہ قتل و غارتگرى خونريزى کو بھى جائز قرار دے ديا تھا ۔ ظاھر سى بات ھے کہ اگر دنياکے لوگ ان کے زھريلے خيالات پر عمل کرتے تو آج اس روئے زمين پر علم و تمدن کا کوئى وجود بھى نہ ھوتا ۔

انھيں بد گمان فلسفيوں ميں ايک شخص بنام ابو العلاء معرى تھا کہ جس کے تمام تر افکار اسى بد گمانى کے محور پر گھوما کرتے تھے اور وہ زندگى کو عذاب سمجھتا تھا ۔ نسل بشر کو ختم کرنے کے لئے اس نے شادى بياہ پيدائش اولاد کو حرام قرار دے ديا تھا ۔ کھا جاتا ھے کہ جب اس کے مرنے کا وقت قريب آيا تو اس نے وصيت کى کہ ميرے لوح مزار پريہ جملہ کندہ کر ديا جائے :

”يہ قبر ميرے باپ کے ان جرائم ميں سے جو اس نے مجھ پر کئے ھيں ايک نشانى ھے ليکن ميں نے کسى پر کوئى جرم نھيں کيا ھے “۔

بد گمانى سے اسلام کا مقابلہ

قرآن مجيد نے بد گمانى کو بھت بڑا شمار کيا ھے اور مسلمانوں کو اس بات سے روکا ھے کہ ايک دوسرے کے بارے ميں بدگمانى کريں ۔ چنانچہ ارشاد ھے : ” ياا يّھا الذين اٰمنوا اجتنبوا کثيرا من الظن ان بعض الظن اثم “ اے ايماندار و! بھت سے گمان (بد ) سے بچے رھو کيونکہ بعض بد گمانى گناہ ھے (۱)

دين اسلام نے لوگوں کو بغير کسى قطعى دليل کے بد گماني کرنے سے روکا ھے ۔ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کا ارشاد ھے : مسلمانوں کى تين چيزيں تم پر حرام ھيں ۱۔خون ۲۔ مال ۳۔ بد گماني۔(۲) جس طرح کسى مدرک و دليل کے بغير کسى کے مال کو دوسرے کى طرف منتقل کرنا غير شرعى ھے اسى طرح لوگوں کے بارے ميں بد گمانى کرنا بھى حرام اور غير شرعى فعل ھے اور اصل قضيہ کے ثابت ھونے سے پھلے کسي کو متھم کرنا جائز نھيں ھے ۔ حضرت على عليہ السلام کا ارشاد ھے :

صرف بد گمانى کى بنا پر کسى کے خلاف حکم لگا دينا نا انصافى ھے ( ۳) حضرت على عليہ السلام نے بد گماني کے نقصانات ، نفسياتى بيمارياں روحانى مفاسد کو بھت جامع و بديع انداز ميں بيان فرمايا ھے :

خبر دار کسى سے بد گمانى نہ کرو کيونکہ بد گمانى عبادت کو فاسد اور گناہ کے بوجہ کو زيادہ کرتى ھے ( ۴)نيک لوگوں سے بد گمانى ان کے حق ميں ظلم و بے انصافى ھے چنانچہ ارشاد مولائے کائنات ھے :



back 1 2 3 4 5 6 next