بد گمانى



يادِ ماضى عذاب ھے يا رب

چھين لے مجھ سے حافظہ ميرا

انھيں ماضى کى تلخ يادوں نے شاعر کو اس شعر پر آمادہ کر ديا ۔ حضرت على عليہ السلام کا ارشاد ھے : انسان کے دل کى گھرائيوں ميں ايسى تلخ ياديں اور برائياں پوشيدہ ھيں جن سے عقل فرار کرتى ھے ۔( ۱۵)

ڈاکٹر ھيلن شاختر کھتا ھے : جن لوگوں کو اپنى ذات پر اطمينان و بھروسہ نھيں ھوتا وہ معمولى سے رنج سے متاثر ھو جاتے ھيں اور ان تکليفوں کى ياديں ان کے دلوں ميں غير شعورى طور سے باقى رہ جاتى ھيں جو ان کے افعال و اقوال ، اعمال و افکار کو متاثر کر ديتى ھيں ۔ جس کى وجہ سے وہ لوگ سخت مزاج ، غمگين اور بد گمان ھو جاتے ھيں اور ان کو پتہ نھيں چل پاتا کہ آخر وہ ان روحانى امراض کے کيونکر شکار ھو گئے ۔ کيونکہ تلخ ياديں ھمارے تحت الشعور ميں مخفى رہ جاتى ھيں اور آسانى سے ظاھر نھيں ھوتيں ۔

دوسرے الفاظ ميں يہ عرض کروں کہ انسان فطرتاً اپنى تلخ يادوں سے فرارکرتا ھے ۔ اس کو قطعاً يہ بات پسند نھيں ھوتى کہ ان يادوں کو خزانہ حافظہ سے نکال کر نظروں کے سامنے رکھے ليکن يہ پوشيدہ دشمن اپنى کينہ توزى سے دست کش نھيں ھوتا ۔ ھمارے اخلاق ارواح اعمال کو اپنے حسب منشاء ابھارتا رھتا ھے چنانچہ کبھى ايسا بھى ھوتا ھے کہ اپنے سے اور دوسروں سے ايسے اعمال سر زد ھو جاتے ھيں يا ايسى گفتگوئيں سننے ميں آتى ھيں جو بظاھر بے سبب اور باعث کمال تعجب ھوتى ھيں ليکن اگر ھم ان کى کھوج ميں لگ جائيں تو پتہ چلے گا کہ يہ انھيں تلخ يادوں کى دين ھے جو ھمارے تحت الشعور ميں پوشيدہ تھيں ۔ (۱۶)

پست فطرت لوگ اپنى ذات کو دوسروں کى طبيعتوں کا پيمانہ سمجھتے ھيں اور اپنى برائيوں کاعکس دوسروں ميں ديکھتے ھيں ۔ چنانچہ حضرت على عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں نھايت عمدہ بات فرمائى ھے۔آپ ارشاد فرماتے ھيں : بد طينت شخص کسى کے بارے ميں حسن ظن نھيں رکھتاکيونکہ وہ دوسروں کا قياس اپنى ذات پر کرتا ھے ۔ ( ۱۷)

ڈاکٹر مان اپنى کتاب ” اصول علم نفسيات “ ميں کھتا ھے : اپني ذات کے دفاع ميں رد عمل کى ايک قسم يہ بھى ھے کہ سارى برائيوںاور برے خيالات کو دوسروں کے سرتھوپ ديا جائے تاکہ اپنا نفس جو قلق و اضطراب ميں مبتلا ھے اس سے چھٹکارا حاصل کر لے ۔ قياس بر نفس يہ بد ترين قسم ھے اور جب اس قسم کا دفاع اپنے آخرى مرحلہ پر پھونچ جاتا ھے تو پھر وہ شخص نفسياتي مريض ھو جاتا ھے ۔ اس قسم کا دفاع کبھى کسى جرم کا نتيجہ ھوتا ھے ۔ مثلا جب ھم کسى جرم کا ارتکاب کرتے ھيں تو ھمارے اندر يہ احساس جاگ اٹھتا ھے اور ھم اپنے نفس سے دفاع کے لئے اسى قسم کا جرم دوسروں کے لئے ثابت کرنے لگتے ھيں ۔ (۱۸)

حضور سرور کائنات صلى اللہ عليہ Ùˆ آلہ وسلم جب مدينہ منورہ پھونچے تو مدينہ  والوں ميں سے ايک شخص پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©Ù‰ خدمت ميں مشرف Ú¾Ùˆ کر بولا: اے رسول خدا صلى اللہ عليہ Ùˆ آلہ وسلم !يھاں Ú©Û’ لوگ بھت اچھے اور بھت نيک Ú¾ÙŠÚº يہ کتني اچھى اور مناسب بات Ú¾Û’ کہ سرکار يھاں قيام پذير ھوئے ! پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ Ùˆ آلہ وسلم Ù†Û’ اس سے فرمايا : تم Ù†Û’ صحيح بات Ú©Ú¾Ù‰ Ú¾Û’ Û”

تھوڑي ھى دير کے بعد ايک دوسرا شخص ( وہ بھى مدينہ ھى کا تھا ) آيا اور اس نے کھا : اے خدا کے رسول صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم !يھاں کے لوگ بھت ھى پست و فرو مايہ ھيں ۔ بڑے افسوس کى بات ھے کہ آپ جيسى عظيم شخصيت ان لوگوں کے درميان ميں سکونت اختيار کرے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے اس سے بھى فرمايا : تم سچ کھتے ھو !

ايک صحابى بھى وھاں پر تشريف فرماتھے آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے دو متضاد قولوں پر تصديق کرنے سے بھت متعجب ھوئے اور ان سے رھا نہ گيا پوچہ ھي ليا : حضور صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم آپ نے دونوں کى تصديق کر دى حالانکہ دونوں کے قول متضاد تھے ؟



back 1 2 3 4 5 6 next