بدعت کیا ہے؟ اور فرقہ ناجیہ کون لوگ ہیں ؟



البتہ میرا نہیں خیال کہ قرضاوی صاحب بدعت کی اس تعریف سے اتفاق کریں گے.

کتاب و سنت کے فہم و ادراک کے بارے میں کہنا چاہوں گا کہ اجتہاد میں اختلاف بھی بدعت کے زمرے میں نہیں آتا.

شیعہ امامیہ کے پاس بھی "كتاب" و "سنت" کی سوا کوئی منبع نہیں ہے. اجماع بھی اہل تشیع کے نزدیک ثانوی کردار کا حامل ہے اور سنت کو کشف کرنے کا وسیلہ ہے اور کتاب و سنت کی طرح دلیل کامل نہیں ہے.

کتاب و سنت کی روشنی میں اہل بیت علیہم السلام سیاسی اور دینی مرجعیت

اہل تشیع «غدیر» کی معروف و مشہور حدیث سے سمجھتے ہیں کہ رسول خدا (ص) کے بعد سیاسی مرجعیت امام علی (ع) کو منتقل ہوئی ہے. حدیث غدیر رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے اور احادیث متواترہ میں سے ہے یا پھر کم از کم مستفیضہ حدیث ہے جس کا صحیح سلسلہ سند اہل تسنن اور اہل تشیع کے منابع میں مسلم اور مستند ہے.

شیعیان اہل بیت (ع) حدیث ثقلین کی بنیاد پر اصول اور فروع میں اہل بیت (ع) کی دینی مرجعیت کا ادراک کرتے ہیں.

نیز آیت تطہیر کی نزول کے بعد رسول اللہ (ص) سے وارد ہونے والی روایات صحیحہ سمیت متعدد روایات میں تصریح ہوئی ہے کہ آیت شریفہ میں «اہل بیت» سے مراد فقط رسول خدا، علی، فاطمہ، حسن و حسین (علیہم السلام) ہیں. اور اللہ تعالی نے انہیں ہرقسم کی پلیدی سے پاک کردیا ہے؛ جھوٹ عظیم ترین پلیدیوں میں سے ہے؛ پس وہ اصول و فروع میں جو بھی کہتے ہیں سچ ہے اور اپنے کلام میں سچّے ہیں. عصمت کی اتنی ہی مقدار – جھوٹ سے عصمت – ہے اس حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے کافی ہے کہ رسول خدا (ص) کے بعد دینی اور سیاسی مرجعیت اہل بیت رسول (ص) کو منتقل ہوئی ہے. [مگر وہ مجتہدین نہیں ہیں].

اہل بیت (ع) خود بیان کرتے ہیں کہ وہ مجتہدین کے زمرے میں شامل نہیں ہیں؛ اور کتاب و سنت سے شرعی احکام کے استنباط کے لئے اجتہاد کے وسائل و ذرائع سے استفادہ نہیں کرتے، بلکہ وہ پیغمبر اکرم (ص) کے کلام کو سینہ بہ سینہ منتقل کرتے ہیں؛ پس اگر اصول و فروع میں کسی موضوع کے لئے حکم جاری کریں تو یہ اجتہاد کی رو سے نہ ہوگی بلکہ ان کا حکم رسول اللہ (ص) کی سنت کی اصلی اور حقیقی میراث پر مبنی ہے وہی میراث جو انہیں بغیر کسی واسطے کے رسول اللہ (ص) سے ورثے میں ملی ہے، اور چونکہ قرآن کریم میں خداوند جلّ‏شأنہ نے ان کو جھوٹ کی پلیدی سے مبرّا قرار دیا ہے لہذا کوئی بھی مسلمان ان کی باتوں کو جھٹلا نہیں سکتا.
ان تین نکتوں میں شیعہ نقطہ نظر کی وضاحت ہوگئی اور آیت تطہیر، حدیث غدیر اور حدیث ثقلین کی دلالت بھی روشن اور صریح ہے. ان تینوں دلائل کے صدور و نزول کا مقصد اہل بیت (ع) کی دینی اور سیاسی مرجعیت کا اثبات ہے اور اس ‎سلسلے میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں اور ان کتابوں میں شیعہ عقائد و آراء کو دلائل و براہین کے ہمراہ بیان کیا گیا ہے. یه کتابیں شائع بھی ہوئی ہیں اور دستیاب بھی ہیں.

علاوه ازیں خواه جناب قرضاوی یه دلائل پڑھ کر قائل ہوں خواه قائل نہ ہوں؛ کتاب و سنت سے استفادہ کرتے ہوئے اہل بیت (ع) کی دینی اور سیاسی مرجعیت کے اثبات کے لئے شیعیان اہل بیت (ع) کا استدلال علمی اصول اور شیووں پر استوار ہی جیسا کہ دیگر مجتہدین فتوا دیتے ہوئے اسی روش سے استفادہ کرتے ہیں، چاہے دیگر مجتہدین اس فتوے کو قبول کریں چاہے قبول نہ کریں؛ کیونکہ دیگر مجتہدین کی عدم قبولیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس مجتہد کا فتوی غیر شرعی ہے اور دوسروں کی عدم قبولیت اسے کتاب و سنت کے دائرے سے خارج نہیں کرتی. کم از کم کہا جاسکتا ہے کہ اہل بیت (ع) کی دینی اور سیاسی مرجعیت کے حوالے سے شیعہ استدلال اہل بیت (ع) کے اقوال سے مستند ہے اور اس استناد کے لئے مشہور اور معروف علمی اصول بروئے کار لائے گئے ہیں اور یہ اصول محض قرضاوی صاحب کے قائل نہ ہونے سے تبدیل نہیں ہوتے.

اس وقت میں استدلال و اثبات نہیں کرنا چاہتا بلکہ یادآوری اور تذکر کے عنوان سے بعض نکات ذکر کرتا ہوں:



back 1 2 3 4 5 6 next