بدعت کیا ہے؟ اور فرقہ ناجیہ کون لوگ ہیں ؟



جہاں تک صحابہ کے سبّ و شتم اور ان کے خلاف دشنام طرازی کا تعلق ہے تو شیعہ علماء اور اہل دانش نے اس متنازعہ اور حساس مسئلے کی مفصل وضاحتیں کی ہیں اور مسلسل کہتے آئے ہیں کہ: «ہماری ثقافت اور ادبیات میں سبّ اور دشنام کی گنجائش نہیں ہے؛ امیر المؤمنین علی (ع) نے بھی اس عمل سے نہی فرمائی ہے. شریف رضی (رہ) نے نہج البلاغہ میں علی (ع) کا یہ کلام ثبت کیا ہے کہ «إِنِّي أََكْرَهُ لَكُمْ أََنْ تَكُونُوا سَبّابِينَ» (2) «میں پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے والوں میں سے ہوجاؤ» البتہ بعض حلقوں میں ایسا ضرور ہوتا ہے اگرچہ بعض سنی حلقوں میں اس سے بھی زیادہ بھونڈا عمل ہوتا ہے اور وہ اہل تشیع اور شیعہ علماء کی تکفیر کا عمل ہے؛ وہ علماء جو خدا کی وحدانیت اور قرآن کے حامل اور وحدت و یگانگت کے داعی ہیں! (3)

«معاویہ» اور بنی امیہ نے دسیوں سال تک اس سے کہیں زیادہ فعل قبیح رائج رکھا وہ یوں کہ معاویہ نے اپنے والیوں اور کارگزاروں کو باقاعدہ مکتوب ہدایات بھیج کر منبروں پر علی (ع) کا سبّ رائج کیا اور اموی خلفاء نے (عمر بن عبدالعزیز کے دور کو چھوڑ کر) اپنے پوری دور سلطنت میں اس بھونڈے عمل کو جاری رکھا... اور اس زخم کا اثر صدیاں گذرنے کے باوجود باقی ہے. (4)

جی ہاں! ہم دشمنان آل محمد (ص) سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں اور ان لوگوں سے بھی جو آل محمد (ص) کے خلاف لڑے؛ انہیں قتل کیا اور انہیں گھربار چھوڑنے اور بےخانمان ہونے پر مجبور کیا. کیا مسلمانوں کے کسی بھی عالم دین میں اتنی قوت ہے کہ ہمیں اس عمل سے منع کرے حالانکہ رسول اللہ (ص) نے اعلانیہ طور پر اور ایک مرتبہ سے زیادہ ایسے افراد سے بیزاری کا اعلان کیا ہے اور ان پر لعنت بھیجی ہے؟.

شعائر حسینی

آخر میں ایک مسئلے کی طرف اشارہ ضروری سمجھتا ہوں جس کے ساتھ پیروان اہل بیت (ع) انس اور الفت رکھتے ہیں اور وہ نسل در نسل انہیں ورثے میں ملتا ہے؛ اور وہ مسئلہ چودہ صدیاں گذرنے کے باوجود امام حسین (ع) کی شہادت کے دن کی تکریم اور امام (ع) کی عزاداری کی مجالس برپا کرنے سے متعلق ہے جو ہر سال برپا ہوتی ہیں.
شیخ قرضاوی نے اہل تشیع کے اس عمل کو بھی بدعت قرار دیا ہے!.

میں ان سے پوچھتا ہوں کہ: آپ اہل تشیع کو حسینی مجالس برپا کرنے پر کوستے ہیں؟ کیا شریعت میں ایسی کوئی دلیل ہے جو اس عمل یا اس عمل کی مانند کسی عمل کو رد یا منع کرتی ہو اور وہ کیا وہ دلیل آپ کو معلوم ہے اور ہم اس سے بےاطلاع ہیں؟!!

بےشک رسول اللہ (ص) ایک بار سے زیادہ امام حسین (ع) کے لئے روئے ہیں اور جبرئیل نے آپ کو تعزیت پیش کی ہے [جبکہ امام حسین (ع) زندہ اور نوعمر تھے] ... اور رسو اللہ (ص) نے ہی مسلمانوں کو امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر دی اور آپ (ع) کے قاتلوں پر لعنت بھیجی. یہ روایت معتبر شیعہ اور سنی منابع اور حافظان حدیث نے رسول اللہ (ص) سے نقل کی ہے.

اس حدیث کے سنی منابع مندرجہ ذیل ہیں:

«حاكم نیشابوری» نے مستدرك الصحیحین میں، «امام احمد» نے مسند میں، «بیہقی» نے دلائل النبوة، میں «خطیب بغدادی» نے تاریخ بغداد میں، «ابن عساكر» نے تاریخ دمشق میں، «حافظ محب طبری» نے ذخائر العقبی میں، «حافظ ابوالمؤید خوارزمی» نے مقتل الحسین (ع) میں، «دارقطنی» نے مسند میں، «ابن صباغ مالكی» نے الفصول المہمة میں، «ابن حجر مکی» نے الصواعق المحرقہ میں، «ابن الجوزی» نے منتظم میں اور ان کی بیتی نے تذكرة الخواص میں، «ابن كثیر» اور «ابن اثیر» نے اپنی تاریخوں میں، «حافظ زرندی» نے نظم الدرر میں، «حافظ ابوالقاسم طبرانی» نے المعجم الكبیر میں، «حافظ قسطلانی» نے المواہب میں، «متقی ہندی» نے كنزالعمال میں اور دیگر بےشمار سنی حفاظ حدیث نے دیگر منابع اور کتب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے مگر ان کا ذکر کرنے کی نہ تو فرصت ہے اور نہ ہی اس مختصر میں انہیں ذکر کرنے کا امکان ہے.

یہ حدیثیں شیعہ منابع میں سنی منابع کی نسبت کئی گنا زیادہ اسناد و ذرائع سے نقل ہوئی ہیں مگر یہاں میری کوشش ان سب کا احاطہ کرنا نہیں ہے کیونکہ نہ یہ مقام اس امر کے لئے مناسب ہے اور نہ ہی اس مکتوب میں اس کی گنجائش ہے.

میں کہتا ہوں کہ: قطعی طور پر جبرائیل (ع) نے امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر رسول اللہ (ص) کو دی ہے اور آپ (ص) نے بھی یہ خبر امام حسین(ع) کے والد علی (ع) اور والدہ حضرت فاطمہ (س) اور ام المؤمنین ام ایمن اور [ام المؤمنین ام سلمہ] اور مسلمانوں کو پہنچائی ہے نیز آنحضور (ثص) ایک بار سے زیادہ مختلف مقامات پر امام حسین (ع) کے لئے روئے ہیں.

پس جناب شیخ قرضاوی! وہ کونسی چیز ہے جو امام حسین (ع) کی شہادت کے ایام میں شیعیان اہل بیت(ع) کو آپ (ع) کے لئے رونے اور نوحہ خوانی اور عزا داری کی مجالس برپا کرنے سے روکتی ہے؟ حالانکہ ان اعمال کا عملی نمونہ رسول اللہ (ص) کی ذات بابرکات ہے.

اہل بیت(ع) کی حدیثوں میں امام حسین (ع) کی شہادت کی برسی کے دوران مجالس عزاداری برپا کرنے اور آپ (ع) کے لئے آہ و بکاء کرنے پر بہت زیادہ تأكید ہوئی ہے اور ہم کلام اہل بیت (ع) سے تمسک کرتے ہیں اور ان احادیث کو حجت سمجھتے ہیں جیسا کہ ابتدا میں ذکر ہؤا.

شاید عزاداری کی ایک حکمت یہ ہو کہ سنہ 61 ہجری کے واقعات ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت و استقامت کی تربیت کے حامل ہیں. بنو امیہ نے بھی اور ان کے بعد آن والے بنوعباس نے بھی اس ثقافت کو حدیث اور فقہ کی کتابوں سے مٹانے کی بہتیری کوشش کی اور شیعی فرہنگ کو ستمگر بادشاہوں کے سامنے نسلیم محض اور ان کی غیرمشروط اطاعت پر مبنی ثقافت میں تبدیل کردیں اور اس ضمن میں انہوں نے بعض حدیثیں بھی رسول اللہ (ص) سے نقل کیں اور اس میں شک نہیں ہے کہ انہوں نے ان حدیثوں کو رسول اللہ (ص) سے منسوب کیا ہے اور ان کی بنیاد پر ایک فقہ کی بنیاد رکھی ہے جس کا اسلامی فقہ کی سے کوئی جوڑ نہیں ہے. میری رائے میں ان احادیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظالموں کی اطاعت گذاری کی حرمت کے حامل محکمات قرآنی کے مقابلے کی سکت نہیں ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظالموں کے خلاف جدوجہد کی ضرورت پر مبنی رسول اللہ (ص) کی احادیث صحیحہ کے سامنے بےاعتبار ہیں.

ان سب قرآن و سنت کی ان احکام کے برعکس بنو امیہ اور بنوعباس کے ادوار میں ظالموں کی اطاعت، ان کے سامنے سرتسلیم خم کئے رکھنا، ان کی پذیرائی کرنا اور ان کے ہمراہ نماز جمعہ میں شرکت کرنا اور ان کی عدم اطاعت کی تحریم اس عصر کی رائج فقہ و تہذیب شمار ہوتی ہے اور یہ فقہ و ثقافت آج بھی جاری ہے.(6)

میرے خیال میں امام حسین کی یاد تازہ رکھنے کے رازوں میں سے ایک راز یہ ہو کہ نینوا کے واقعے میں مضمر ثقافت و تعلیم مذکورہ بالا ثقافت تسلیم سے بالکل مختلف ہے؛ یہ ثقافت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظالموں کی نافرمانی اور ان کے خلاف جدوجہد کی ثقافت ہے اور اہل بیت علیہم السلام مسلمانوں کے درمیان اہل ستم کی سامنے سر تسلیم خم کرنے اور ان کی ظالمانہ فرمانروائی کو تسلیم کرکے ان کے روبرو کرنش کرنے کے رجحان کی مد مقابل حسینی ثقافت کی ترویج کے لئے کوشاں ہیں.

البتہ امام حسین (ع) کی عزاداری میں مٹھی بھر افراد محدود سطح پر بعض غیرشائستہ اعمال و افعال کا ارتکاب کرتے ہیں اور علمائے شیعہ نہ صرف ان اعمال کو ناپسند کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو ان اعمال سے منع بھی کرتے ہیں اور شعائر حسینی کو ان افعال و اعمال سے پاک رکھنے کے لئے کوشش کرتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ جاننا ضروری ہے کہ ان رویوں کا کھاتہ شعائر حسینی کف احیاء اور امام حسین (ع) کی عزاداری کی مجالس کے انعقاد کی کھاتے سے الگ ہے اور ان دو کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے.


حاشیے

1.     تو اب یہ بتانا قرضاوی صاحب کا کام ہے کہ کون کس Ú©ÛŒ تنقیض کررہا ہے اور کون حقیقتاً دوسروں Ú©ÛŒ توہین اور اپنے مذہب Ú©ÛŒ ترویج Ú©Û’ لئے کروڑوں اور اربوں خرچ کررہا ہے۔
2.    
 
خطبه 197 نهج البلاغه.
3.     عالمی سامراج Ú©Û’ خلاف جہاد Ú©Û’ دعویدار تمام ممالک Ú©Û’ تشدد پسند عناصر گذشتہ ڈیڑھ برس سے پاکستان Ú©Û’ ایک علاقے میں جمع ہوکر عالمی استعمار Ú©Û’ حقیقی دشمنوں یعنی اہل تشیع کا خون بہا کر جنت Ú©Û’ Ù¹Ú©Ù¹ بانٹ رہے ہیں اور وہاں ہلاک ہوکر شہادت کا رتبہ کمانے Ú©Û’ چکر میں ہیں کیا یہ عمل گالی دینے سے Ú©Ù… ہے؟.
4.     جبکہ بہت سے سنی معاویہ Ú©Û’ نام پر تو کیا یزید Ú©Û’ نام پر بھی مرتے اور مارتے ہیں اور امام حسین (ع) Ú©Û’ خلاف تک یاوہ سرائی کرتے ہیں کیا یہ عمل پسندیدہ ہے؟.
5.     اور رسول اللہ (ص) Ù†Û’ اہل بیت (ع) Ú©Û’ دشمنوں Ú©Ùˆ بد دعا دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ... اللہم عاد من عاداہم
6.     کیا قرضاوی صاحب قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى («کہہ دو اے میرے رسول (ص)! میں تم سے اپنی رسالت Ú©Û’ اوپر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا سوائے اس Ú©Û’ کہ تم میرے اقرباء (اہل بیت (ع)) سے محبت Ùˆ مودت رکھو.» سوره شوری آیت 23.) پر یقین نہیں رکھتے؟ اگر وہ اس قرآنی آیت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر کیا وہ اہل بیت Ú©Û’ دشمنوں اور ان Ú©Û’ خلاف Ù„Ú‘Ù†Û’ والوں اور انہیں قتل کرنے والوں سے بیزاری کا اعلان کریں Ú¯Û’ اگر ایسا نہیں کریں Ú¯Û’ تو کیا وہ قرآن پر ایمان میں قصور کا شکار نہ ہونگے؟
7.     جناب قرضاوی خود بھی قطر Ú©Û’ شیخ Ú©Û’ ماتحت ہیں اور ان Ú©Û’ امام جمعہ ہیں.



back 1 2 3 4 5 6