بدعت کیا ہے؟ اور فرقہ ناجیہ کون لوگ ہیں ؟



جو بھی – نص کی بنیاد پر یا پھر اجتہاد کی بنیاد پر – کتاب و سنت کا سہارا لے وہ نجات یافتہ فرقے کا فرد شمار ہوگا اور جو شخص کتاب و سنت کے دائرے سے نکل جائے گا اور کلّی یا جزئی طور پر کتاب و سنت سے روگردانی کرے گا وہ گمراہوں اور ہلاک شدہ لوگوں میں شمار ہوگا. البتہ یہاں ہم نے اجتہاد کا جو ذکر کیا ہے یہ وہ اجتہاد ہے جو علمی بنیادوں پر استوار ہو اور علمی قواعد و ضوابط و اصول کے تحت انجام پائے نہ وہ اجتہاد جو ہوا و ہوس اور سیاسی ضرورت کے تحت انجام پاتی ہے (جبکہ نہ تو قرآن میں اس کی سند ہوتی ہے اور نہ ہی سنت میں) جیسا کہ صدر اول کے خوارج اور زمانہ معاصر کے تکفیریوں کا شیوہ ہے اور وہ نفسانی خواہشات یا پھر بعض دوسروں کے سیاسی اہداف کے تحت خون مسلم حلال کرتے ہیں اور مسلمان کا خون غیر حق بہانے کی حرمت پر دلالت کرنے والی حدیث نبوی کو تنقیض کرتے ہیں جبکہ بغیر کسی دلیل کے مسلم کا قتل بھی حرمت کے زمرے میں آتا ہے.

سنی ممالک میں مذہب تشیع کی ترویج

جناب قرضاوی نے دعوی کیا ہے کہ سنی اکثریتی علاقوں میں تشیع کی ترویج ہورہی ہے؛ کاش وہ کوئی ایک مثال بھی پبش کرتے. میں سمجھتا ہوں کہ [بالفرض اگر یہ بات درست بھی ہو] اس کا حجم بہت ہی کم ہے اور اسے قرضاوی کی فکرمندی کا سبب نہیں بننا چاہئے اور انہوں نے یہاں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے.
کاش وہ ان سنیوں کے یادنامی پڑھ لیتے جو پہلے سنی تھیے اور بعد میں شیعہ ہوگئے ہیں. ان میں بہت سوں نے اپنے ذاتی یادناموں میں اپنے شیعہ ہوجانے کی دلیلیں بیان کی ہیں؛ اگر وہ ان یادناموں اور یادداشتوں کا مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ ان لوگوں نے ایک اندرونی انقلاب اور تبدیلی کے زیر اثر تشیع کی جانب اپنے سفر کا آغاز کیا ہے یا پھر کسی اور سبب کی بنا پر وہ تشیع کی طرف آئے ہیں. اگر انہوں نے شیعہ ہونے والوں کی یادوں کا مطالعہ کیا ہوتا تو اس عظیم اسلامی مکتب پر ان ناروا بہتان تراشیوں کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوجاتے اور ان کی صحت و سقم کی تشخیص کے قابل ہوجاتے کہ کیا ان کی تکفیر صحیح ہے یا نہیں؟

اور ہاں! ان لوگوں (اہل تشیع) نے خرافات، توہمات اور بدعتوں کے جدید زمانے اور مواصلات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں کیونکر قیام کیا اور کیونکر استوار رہے؟ شیعہ ہونے والے سنیوں کی اکثریت کا تعلق اسلامی انقلاب کی کامیابی اور تاریخ معاصر میں اسلامی حکومت کے اولین تجربے کے بعد سے ہے.

اس انقلاب نے مسلمانوں سمیت دنیا میں بہت سے نظریں شیعی تشخص کی جانب متوجہ کرادیں اور تشیع کے بارے میں تحریف قرآن!، نماز میں امام حسین (ع) کی تربت پر نہیں بلکہ تربت کو سجدہ!، پیغمبر اعظم (ص) کے انتخاب میں جبرائیل امین (ع) پر خیانت کے الزام والی من گھڑت کہانی - جس کے مطابق وحی درحقیقت علی (ع) کے لئے آئی تھی – متعہ کے نام پر زنا کی حلالیت، قبلہ مسلمین کی بجائے اہل بیت (ع) کی قبروں کی طرف سجدہ کرنا اور اس طرح کی بہت سے دیگر کہی سنی بے بنیاد اور ناروا تاریخی تہمتوں کو – جو عالم اسلام میں اہل بیت (ع) کی تعلیمات اور تشیع کی ثقافت و ادبیات و تعلیمات، کلام، اور سیرت پر مبنی کتابوں کی وسیع اشاعت سے قبل وسیع سطح پر سینکڑوں کتابوں، مقالات اور مضامین کی صورت میں شائع ہوتی رہی تھیں - لوگوں کے ذہنوں میں دو بارہ لوٹا دیا. اور جب شیعہ تعلیمات وسیع سطح پر شائع ہوئیں تو مسلمانوں نے اہل تشیع کے بنیادی منابع کی طرف براہ راست رجوع کرنا شروع کیا؛ ان کو اہل بیت کی روایات و احادیث اور تعلیمات و احکام براہ راست پڑھنے کا موقع ملا اور انہوں نے آل محمد (ص) کی ثقافت کا مطالعہ کیا اور ان کی دعائیں دیکھیں اور پڑھیں اور مطالعہ کرنے پر انہیں اپنے تصورات کے برعکس نتیجہ ملا. جب انہوں اہل بیت کے کلام، دعاؤں، اور ان کی دینی ثقافت کا مطالعہ کیا تو انہیں خالص توحید بھی اہل تشیع کے ہاں نظر آئی، ایسی توحید جس سے زیادہ خالص توحید کہیں ہی نہیں. اب سب سے پہلے ان کا ان باتوں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے جو وہ تشیع کے خلاف سنتے اور پڑھتے آئے تھے؛ ان کا اعتقاد متزلزل ہوجاتا ہے؛ اور اب نئے سرے سے تشیع کا مطالعہ کرتے ہیں اور تشیع کے بنیادی منابع کی طرف رجوع کرتے ہیں؛ اور انہیں اطمینان ملتا ہے اور شیعہ ہوجاتے ہیں؛ ظاہری امر ہے کہ اب یہ لوگ اپنیے مسکن میں اور اپنے ارد گرد کے ماحول میں مکتب اہل بیت (ع) کے مبلغ بنیں گے.

شاید اگر تشیع کے خلاف ان کی ذہن میں اتنی ناشایستہ اور الٹی تصویر کشی نہ کی گئی ہوتی اور منفی انداز میں ان کی ذہنیت پروان نہ چرھائی جاتی تو تشیع کی تیز رفتار ترویج کی بنا پر حتی شمالی افریقہ میں قرضاوی صاحب کے فکرمند ہونی کی نوبت نہ ہی آتی!

تاہم جہاں تک مجھے معلوم ہے تشیع کی ترویج کی رفتار اتنی کم ہے کہ قرضاوی صاحب کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے؛ اور کاش وہ موقف اختیار کرنے سے پہلے اپنے دفتر کو ہدایت کرتے کہ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ تحقیق کی جائے اور زیادہ مستحکم اور جامع رپورٹ انہیں دے دی جائے.

امر مسلم یہ ہے کہ ہمارے حوزات علمیہ کی طرف سے سنی علاقوں میں – دیگر مذہب کے بطلان کی غرض سے ان کی اصولی اور فروعی تنقیض کی بنیاد پر – تشیع کی ترویج و تبلیغ کا کوئی پروگرام یا منصوبہ نہیں ہے؛ حتی ہم میں سے بہت سے افراد اس عمل کو وحدت اور یگانگی کی ضرورت کے حوالے سے اپنے مراجع تقلید کی ہدایات کے منافی سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارا یہ اقدام اہل سنت کی مرجعیت اور مکتب کی توہین کے زمرے میں آتا ہے.

اگر ہمارے حوزات علمیہ میں اس قسم کا کوئی پروگرام یا منصوبہ ہوتا قطعی طور پر عیان ہوجاتا اور خفیہ نہ رہ سکتا اور اگر کوئی ثبوت یا سند ہوتی تو جناب قرضاوی بھی اس ثبوت کو نظر انداز نہ کرتے اور اپنے دعوے کے اثبات کے لئے اس سے بھرپور استفادہ کرتے اور تشیع کی جانب سے اس ہدف کے لئے کروڑوں اور اربوں روپے خرچ کرنے اور عالم و ماہر افراد تیار کرنے کے خالی خولی دعوے پر ہی اکتفا نہ کرتے.

اور اگر اتنا وسیع اور عریض پروگرام یا منصوبہ ہو تو کیا آج کے اس دور میں – جبکہ دنیا شیشے کی ہوچکی ہے اور ہر قسم کا واقعہ بہت جلد آشکار ہوجاتا ہے – اسے مخفی رکھنا ممکن ہوتا؟

ہمارے دینی مدارس اور حوزات علمیہ کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں؛ اور جو کوئی بھی اس کے درسی اور تعلیمی پروگرام سے آگاہ ہونا چاہے وہ بآسانی آسکتا ہے؛



back 1 2 3 4 5 6 next