نزول وحی



تیسرا نظریہ:کچھ لوگوں کا نظریہ ھے کہ قرآن دو طریقوں سے نازل ھوا ھے ایک دفعی نزول یعنی یکجا نازل ھونا اور دوسرا تدریجی نزول،با الفاظ دیگر شب قدر پورا قرآن پیغمبر (ص)پر نازل ھوا اور پھر پیغمبر(ص) کی طول حیات میں تدریجی طور پر نازل ھوتا رھا اس نظریہ پر اھل سنت اور شیعہ دونوں کی طرف سے نقل کی جانے والی روایات موجود ھیں فرق صرف اتنا ھے کی اھل سنّت کی روایات کے مطابق قرآن یکجا عرش سے پھلے آسمان پر نازل ھوا اور ”بیت العزة“نامی جگہ پر نازل ھوا لیکن شیعہ روایات کے مطابق قرآن یکجا عرش سے چوتھے آسمان پر”بیت المعمور“نامی مقام پر نازل ھوا۔

پھر بزرگ علماء نے قرآن کے مختلف طریقوں سے نازل ھونے کی توجیہ مندرجہ ذیل طریقوں سے بیان کی ھے۔

۱۔شیخ صدوق تحریر کرتے ھیں کہ قرآن کے یکجاپیغمبر (ص) پر نازل ھونے سے مراد یہ ھے کہ آپ کو کلّیات قرآن کی آگاھی دیدی گئی تھی(نہ یہ کہ خود قرآن یکجا نازل ھوا ھو)

۲۔ابو عبدالله زنجانی کہتے ھیں:”روح قرآن وھی قرآن کے عالی اھداف ھیں جو شب قدر قلب پیغمبر (ص)پر نازل ھوئے پھر زبان پیغمبر سے ظاھر ھوئے “۔

۳۔علامہ طباطبائی لکھتے ھیں:”قرآن اپنے باطنی وجود میںھر طرح کے تجزیہ و تفصیل سے خالی ھے جس کا نہ جز ھے نہ فصل ھے اور نہ آیت نہ سورہ ھے بلکہ ایک مستحکم حقیقت ھے جو اپنا عالی ترین مقام رکھتی ھے اور ھرکس وناقص کی دسترس سے بھی دور ھے پس قرآن کے دو وجود ھیں ایک وجود ظاھری:جو کہ الفاظ اور عبارات کی صورت میں ھے دوسرا وجود باطنی جو اپنی اصلی جگہ پر ھے لہٰذا قرآن شب قدر میں اپنے باطنی واصلی وجود کے ساتھ یکجا قلب پیغمبر(ص) پر نازل ھوا پھر تدریجاً اپنے ظاھری وجود کے ساتھ مختلف منا سبتوں اور مختلف موقع ومحل پر حیات پیغمبر(ص) میں نازل ھوا۔([14])

البتہ یہ تمام نظریات صحیح اور قابل احترام ھیں مگر ظاھر قرآن کے ساتھ جو نظریہ زیادہ مناسبت رکھتا ھے وہ سب سے پھلا نظریہ ھے جو کہ شیخ مفید(رہ) کا نظریہ ھے کہ نزول قرآن کا آغاز ماہ رمضان کی شب قدر میں ھوا۔

 

________________________________________

[1] سورہ فرقان آیہ ۳۲۔

[2] سورہ فرقان آیہ۳۲۔



back 1 2 3 4 5 6 next