پرمسرت بہار

سيد حسين حيدر زيدي


مکہ کے رہنے والوں نے حضرت خدیجہ(س)اور حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد اپنی دشمنی میںاور اضافہ کردیا یہاں تک کہ انہوں نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ، دوسری طرف یثرب کے رہنے والے کچھ افراد اسی سال حج کے لئے مکہ آئے اور وہ لوگ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دین کے بلند و بالا اہداف سے آشنا ہوئے اور یثرب جاکر انہوں نے اس دین کی تبلیغ شروع کی ، یثرب کے لوگ آہستہ آہستہ اسلام سے قریب ہونے لگے اور اگلے سال حج کے موسم میں بہت زیادہ لوگ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)کے پاس آئے اور آپ کے ہاتھوں پر مسلمان ہوگئے اور آپ سے معاہدہ کیا ۔ لیکن بعثت کے تیرہویں سال حج کے موسم میں یثرب کے کچھ حاجیوں نے جن کی کل تعداد تہتر تھی ،ایام تشریق کے درمیان سرزمین منی میں عقبہ کی جگہ پر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) پر ایمان لائے اور آنحضرت سے معاہدہ کیا کہ ہم لوگ آپ کی اور آپ کے اصحاب کی اپنے خاندان کی طرح حمایت کریں گے(۴)۔

ایام حج کے گذرنے اور اہل یثرب کے اپنے وطن پہنچنے کے بعد مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنا شروع کردیا ، وہ لوگ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ)کے حکم سے مشرکین قریش کی نظروں سے بچ کر کبھی تنہا اور کبھی قافلہ کی شکل میں یثرب کی طرف روانہ ہونے لگے ۔ اور اس طرح مکہ معظمہ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) اورآپ کے کچھ اصحاب ، اور عورتوں، بچوں اور بوڑھے لوگوں کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)آخری دو مہینوں میں پہلے سے زیادہ خطرے اور تنہائی کا احساس کررہے تھے ۔ آخر کار قریش کے بزرگ لوگوں نے ماہ صفر کے آخری ایام میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔

انہوںنے ”دارالندوہ“ جو کہ بزرگان و اشراف کی مجلس شوری کی جگہ تھی، وہاں پر ایک مٹینگ کی اور بہت زیادہ گفت وشنید کے بعد قریش کے تمام قبیلوں کے نمایندوں کی طرف سے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ)کے قتل کا حکم صادر ہوگیا اور پہلی ربیع الاول اس کام کیلئے معین ہوگئی۔

اور وہ رات بھی آن پہنچی جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مشرکین کے منصوبہ کو خاک میں ملانے کیلئے حضرت علی(علیہ السلام)کو اپنے بستر پر سلایا اور خود ابوبکر کے ساتھ مکہ سے باہر چلے گئے اور غار ”ثور“ جو کہ مکہ کے جنوب میں اور مدینہ کے بالکل سامنے واقع ہے، اس میں پناہ لے لی۔

مشرکین نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)کے گھر پر حملہ کے بعد جب حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام)کو آپ کے بستر پر دیکھا تو غصے سے بپھر گئے اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ)کی تلاش میں نکل پڑے اور آپ کو تلاش کرنے کیلئے سو اونٹ انعام کے طور پر معین کئے لیکن انہوں نے جس قدر بھی کوشش کی آپ کو تلاش نہ کرسکے۔

آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ)نے غار ثور میں تین رات رہنے کے بعد چوتھی ربیع الاول کو مدینہ کی طرف ہجرت کی ،بارہ ربیع الاول کو مدینہ میں داخل ہوئے اور مدینہ کے رہنے والوں نے آپ کا زبردست استقبال کیا(۵)۔

 Ù¾ÛŒØºÙ…بر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ)Ù†Û’ حضرت علی (علیہ السلام)Ú©Ùˆ ان کاموں میں جو دوسروں Ú©ÛŒ ہمت سے باہر تھا ØŒ اپنا جانشین بنایا اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ) اور جو آپ Ú©Û’ ساتھ تھے ØŒ ان Ú©ÛŒ مدینہ Ú©ÛŒ طرف ہجرت پہلی ربیع الاول مطابق تیرہویں بعثت بروز جمعرات شروع ہوئی اور بارہ ربیع الاول Ú©Ùˆ ظہرکے وقت یہ لوگ مدینہ میں داخل ہوئے، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ)Ù†Û’ پہلے ”قبا“نامی دیہات میں قیام کیا اور وہاں پر دو رکعت نماز ظہر اور دو رکعت نماز عصر پڑھی۔

حضرت علی(علیہ السلام)Ú©Ú†Ú¾ دنوں Ú©Û’ بعد مکہ سے” قبا“ پہنچے اور عمرو بن عوف Ú©Û’ گھر میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ)سے ملاقات Ú©ÛŒ Û” اس Ú©Û’ بعد پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ)Ù†Û’ مدینہ Ú©ÛŒ طرف روانہ ہونے کا ارادہ کیا۔ جمعہ Ú©Û’ روز قبا ہی میں طلوع آفتاب Ú©Û’ وقت بنی سالم بن عوف Ú©Û’ محلہ میں آپ Ù†Û’ قیام کیا اور ان Ú©Û’ لئے مسجد بنانے کا ارادہ کیا اور قبلہ کومعین فرمایا، اور دو رکعت نماز جمعہ Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ اور نماز یوں کیلئے دو خطبہ دئیے۔ پھر اسی روز یثرب Ú©ÛŒ طرف روانہ ہوگئے ØŒ اس وقت حضرت علی(علیہ السلام)بھی آپ Ú©Û’ ہمراہ تھے۔ آنحضرت اونٹ پر سوار تھے اورآپ جب (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ) اہل یثرب Ú©Û’ پاس سے گذرتے تھے تو ہر کوئی آپ سے اپنے محلہ میں رہنے Ú©ÛŒ درخواست کرتا تھا Û” یہاں پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ) کا شایان شان استقبال ہوا اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ) Ù†Û’ ان سے فرمایا:  اونٹ Ú©ÛŒ مہار Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دو وہ جہاں بھی بیٹھ جائے گا میں اس Ú©Û’ گھر قیام کروں گا۔ پہلی ربیع الاول ØŒ جمعرات Ú©ÛŒ رات Ú©Ùˆ عالم بشریت خصوصا عالم اسلام میں ایک عظیم واقعہ رونما ہوا جو ”شب ہجرت“ Ú©Û’ نام سے مشہور ہوا۔

حوالہ جات

Û±Û”  دیکھیں، فرازہای از تاریخ پیغمبرا سلام(ص۹، ص ÛµÛ·Û” منتھی الآمال، ج ۱، ص Û±Û³Û” المبعث والمغازی، ص Û³Û´Û” الامتاع، ص ۳، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص ÛµÛ” بحار الانوار، ج۱۵، ص Û²Û´Û¸Û” تاریخ ابن خلدون، ج ۱، ص Û³Û¸Û³Û” تاریخ دمشق، ج۳، ص Û·Û°ØŒ ۷۲،۷۵۔

۲۔ دیکھیں، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ص ۶۳۔ بحار الانوار، ج۶۵، ص ۲۳۲۔ روز شمار تاریخ اسلام، (ماہ محرم)، ص ۴۵۔

Û³Û”  دیکھیں، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص ۳۹، فرازہای از تاریخ اسلام، ص۷۷، منتھی الآمال، ج۱، ص Û´ÛµÛ”

۴۔ تاریخ ابن خلدون، ج۱، ص ۳۹۲۔

۵۔ دیکھیں، مسار الشیعہ، ص۲۷، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ص ۳۹۶، فرازہای از تاریخ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ)، ص ۱۹۱۔ زندگانی چہاردہ معصوم(علیہ السلام)، ترجمہ اعلام الوری، ص ۸۸۔ الارشاد، ص ۴۵۔ تاریخ دمشق، ج۱، ص ۳۷ اور ۴۷۔ تاریخ الطبری، ج۲، ص ۳۹۴۔ الکامل فی التاریخ، ج۲، ص ۱۰۱۔



back 1 2 3 4 5