پیغمبر اکرم کے کلام کی فصاحت و بلاغت

سيد حسين حيدر زيدي


پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی زبان ، روان اور سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لئے کمال ، اصلاح اور فائدہ کا سبب تھی، اور تمام زمانوں میں انسانوں کی راہنمائی اور غافل افراد کو ہوائے نفس سے رہا کرنے کیلئے بہترین راستہ ہے ۔

خلاصہ

فصیح و بلیغ کلام کا ہنر یہ ہے کہ وہ انسانوں کے دلوں میں نافذ ہوجائے اور روح کو تاریکی، برائی اور ہر طرح کی پلیدی سے آزاد کردے ، یہاں پر دنیا کے فصیح ترین انسان حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی فصاحت و بلاغت اور ان کے ہنربیان کے متعلق گفتگو مقصود ہے ،وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جو فصاحت میں سب سے ممتاز اور بلاغت میں بے نظیر تھے کیونکہ آپ کے قلب پر الہام نازل ہوتا تھا اور خداکی باتیں آپ کی زبان پر جاری تھیں، ایک اعرابی نے جو عرب کے احوال و اخبار سے واقف تھا ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے عرض کیا : میں پورے عرب کے درمیان گیا ہوں اور میں نے ان کی فصیح زبان سنی ہے لیکن میں نے آپ سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا، کس نے تمہیں یہ ہنر اور آداب سکھائے ہیں؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: خداوند عالم نے مجھے سکھایا ہے اور بہترین چیز سکھائی ہے ۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی زبان ، روان اور سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لئے کمال ، اصلاح اور فائدہ کا سبب تھی، اور تمام زمانوں میں انسانوں کی راہنمائی اور غافل افراد کو ہوائے نفس سے رہا کرنے کیلئے بہترین راستہ ہے ۔

مقدمہ

دنیا کے ظلمت کدہ میں حقیقت ، وہم و گمان کے ساتھ مخلوط ہے اور کوئی راستہ ظاہر نہیں ہے ، خواہشات، وظائف اور قیود کے اعتبار سے ہر قدم پر ہزاروں پیچ و خم موجود ہیں ، حیرت و گمراہی سے بچنے کیلئے کوئی راہنما تلاش کرنا چاہئے اور اس کے ذریعہ اس خطرناک اور سخت راستہ کو آسان بنانا چاہئے ۔ راستہ کا راہنما بننا سب کے بس کی بات نہیں ہے اگر راستہ طے کرنا مشکل اور خطرناک ہو تو یقینا رہبری اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ، اس کام کے لئے پاک طینت، اصل گوہر، پہاڑ کی طرح ثابت روح، بلند آسمان کی طرح ثابت ہمت و حوصلہ اور سب سے اہم یہ کہ انسان کا دل شوق سے لبریزہو تاکہ وہ انسانوں کی راہنمائی کیلئے ذوق وشوق سے قدم بڑھائے اور انسانوں کو تاریکی سے نجات دلائے اور راستوں سے گمشدہ افراد کو ہلاک ہونے سے بچاکر ان کی منزل مقصود تک پہنچائے یہ بلند مقام اور انسانیت کی معراج یقینا حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو حاصل ہے کیونکہ آپ کی رفتار سب کیلئے سرمشق کمال اور آپ کی گفتار فضیلت و اخلاق کا قانون ہے ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زبان مبارک سے جو احادیثیں ظاہر ہوئی ہیں وہ انسانوں کے دلوں میں سما گئی ہیں اور بہت سے لوگ آپ کی ان باتوں سے حیرت زدہ ہو کر ظلمات و وہم و گمان میں پڑ گئے ہیں آپ کے کلمات، آب حیات کی مانند ہیں جو ان کو معانی اور اور جاوید زندگی عطا کرتے ہیں ۔

 

حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خاک سے افلاک تک

تہذیب و تمدن سے خالی سرزمین، خشک و بے حاصل پہاڑوں کے درمیان ایک ایسے یتیم نے اپنے دادا اور چچا کی سرپرستی میں پرورش پائی جو اپنے والد کی نعمت اور والدہ کی محبت سے محروم ہوگیا تھا ۔

جوانی کے زمانہ میں جب کہ آپ امین اور سچے تھے ، اپنے چچا کے ساتھ فقر کی زندگی گذار رہے تھے ، آپ کی روح زندگی کی تعبیر میں برائیوں اور پلیدوں سے بہت دور تھی۔ چالیس سال کی عمر میں بت پرستی ، جاہلیت اور بیداد گری سے جو کہ اس وقت لوگوں کے درمیان رائج تھی، مقابلہ شروع کیااور خداوند عالم پر تکیہ کرتے ہوئے لوگوں کو خدا کی وحدانیت کی دعوت دی اور آپ کی خواہش تھی کہ لوگ بتوں کی پرستش سے آنکھیں بند رکھیں اور خدائے وحدہ لاشریک کی بہت ہی خلوص کے ساتھ عبادت کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ بھائی اور ایک دوسرے کے مساوی ہوں، کسی کو بھی پرہیزگاری کے علاوہ کسی اور چیز سے امتیاز نہ دیا جائے ۔



1 2 3 4 5 6 next