پیغمبر اکرم کے کلام کی فصاحت و بلاغت

سيد حسين حيدر زيدي


حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا کلام ایسا ہے جس کے حروف کم ہیں اور اس کے معانی بہت زیادہ ہیں، تصنع اور تکلف سے بہت دور ہے جہاں پر تفصیل ہونا چاہئے وہاں آپ کا بیان مفصل ہے اورجہاں اختصار ہونا چاہئے وہاں مختصر ہے ۔ آپ کا کلام نامانوس کلمات،مبتذل او ربازاری باتون سے بری ہے ، آپ کے کلمات حکمت کے ہمدوش، عصمت سے ہم آغوش اور تائیدالہی سے نزدیک،اورتوفیق سے ہمنشین تھے ۔ خداوند عالم نے آپ کے قول کو محبت کے ساتھ قبول کیا ہے ، آپ کے پاس مہابت و حلاوت، افہام و تفہیم اور اختصار سب موجود ہیں، آپ باتوں کو مکرر ربیان کرنے سے بے نیاز ہیں، جب آپ کچھ کہنے کیلئے اپنے لبوں کو جنبش دیتے تھے تو کسی بھی مقرر و سخنور میں بولنے کی ہمت نہیں تھی ، آپ مفصل کلام کا مختصر کلام کے ساتھ جواب دیتے تھے ، آپ کسی پر طعن و تشنیع نہیں کرتے تھے، آپ نہ ہی آہستہ بولتے تھے اور نہ ہی جلدی جلدی ۔ آپ کا کلام نہ لمبا ہوتا تھا اور نہ مبہم۔ آپ سے زیادہ سود مند، سلیس، موثر، روان، فصیح اور بلیغ کلام کسی کا نہیں تھا (٤) ۔ جاحظ یہ باتیں بیان کرنے کے بعداس ڈر سے کہ کہیں اس کی باتوں کو کوتاہ نظر اور بے خبر لوگ بیہودہ اور لغو شمار نہ کریں ، اس طرح کہتا ہے : شاید وہ لوگ جن کے پاس علم زیادہ نہ ہو اور وہ کلام و تقریر کے اسرار ورموز سے بے خبرہو کر یہ گمان نہ کریں کہ ہم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہنر بیان میں تکلف سے کام لیا ہے اور ان کے کلام کی اہمیت میں بیہودہ باتیں کہی ہیں نہیں ایسا نہیں ہے ، اس خدا کی قسم جس نے بیہودہ باتوں کو کو علماء پر حرام کیا ہے اور تکلف کو صاحب نظر افراد کی نگاہ میں قبیح جانا ہے اور جھوٹوں کو عقلمندوں کے سامنے پست شمار کیا ہے ایسا گمان وہ لوگ کرتے ہیں جو حقیقت سے منحرف ہیں(٥) ۔

ابن ابی قحافہ Ù†Û’ جس Ú©Ùˆ عرب Ú©Û’ اخبار Ùˆ احوال پر پورا تسلط تھا  ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم)سے کہا: میں پورے عرب Ú©Û’ درمیان گیا ہوں اور میں Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ فصیح زبان سنی ہے لیکن میں Ù†Û’ آپ سے زیادہ فصیح کسی Ú©Ùˆ نہیں دیکھا، کس Ù†Û’ تمہیں یہ ہنر اور آداب سکھائے ہیں؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ù†Û’ فرمایا: خداوند عالم Ù†Û’ مجھے سکھایا ہے اور بہترین چیز سکھائی ہے Û”

 

پیغمبر اکرم کے بیان کی کیفیت

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) کا کلام ØŒ کلام کا پیغمبر ہے اور آپ Ú©Û’ کلام Ú©Ùˆ دوسروں Ú©Û’ کلام پر ویسے ہی سبقت حاصل ہے جس طرح پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ú©Ùˆ دوسروں پر فضیلت حاصل ہے ØŒ کیونکہ ہر سخنور Ú©Û’ ضمیر Ú©ÛŒ آواز اس کا کلام ہوتاہے اور فضل وشرف ØŒ سخنور Ú©ÛŒ فضیلت Ú©ÛŒ حکایت کرتا ہے Û” پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ú©ÛŒ عبارت ØŒ سادگی Ú©Û’ باوجود اس قدر پرشور Ùˆ ہیجان ہوتی ہے گویا اس میں حیات Ùˆ قوت موجیں ماررہی ہے اور عقل نورانی ØŒ کلمات Ú©Û’ درمیان نور افشانی کررہی ہے Û”

آنحضرت  (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ú©Û’ کلام میں Ú©Ú†Ú¾ خاص آداب ہوتے تھے ØŒ آپ وقت پر کلام کرتے تھے، ضرورت سے زیادہ اپنی زبان پر کلام جاری نہیں کرتے تھے، آپ ہمیشہ سوچتے رہتے تھے اور جب آپ Ú©ÛŒ خاموشی لمبی ہوجاتی تھی تو فرماتے تھے: ہم انبیاء ØŒ Ú©Ù… بولتے ہیں(Ù§)ØŒ یا آپ فرماتے تھے : خدا زیادہ بولنے Ú©Ùˆ پسند نہیں کرتاجو ضرورت بھر کلام کرتا ہے خدا اس Ú©Ùˆ دوست رکھتا ہے (Ù¨) Û”

آنحضرت  (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ú©ÛŒ آواز بہت بلندتھی اس Ú©Û’ باوجود آپ بہت آہستہ بولتے تھے اور فرماتے تھے: خدا بلند آواز سے بولنے Ú©Ùˆ پسند نہیں کرتا (Ù©) Û”

پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) عام طور سے نماز Ú©Û’ بعد سخنرانی کرتے تھے اور خاص مناسبات اور بڑے حوادث Ú©Û’ وقت آپ Ú©ÛŒ باتیں زیادہ ہوجاتی تھیں، آنحضرت  (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) اپنی بات Ú©Û’ دوران لوگوں Ú©Û’ سوالوں Ú©Û’ جواب دیدیا کرتے تھے ØŒ آپ زیادہ سوال کرنے سے خوش نہیں تھے اور فرماتے تھے: جب تک میں Ú©Ú†Ú¾ نہ کہوں مجھ سے سوال نہ کرو۔ تمہار بزرگ اجداد زیادہ سوال کرنے Ú©ÛŒ وجہ سے گمراہ ہوگئے تھے ØŒ جب میں تمہیں کوئی Ø­Ú©Ù… دیتا ہوں تو جہاں تک ہوسکے اس Ú©Ùˆ انجام دو اور جس کام سے تمہیں منع کروں اس سے رک جائو کیونکہ اسی میں تمہارے لئے خیر ہے (١٠) Û”

 

 



back 1 2 3 4 5 6 next