تفرقہ سے پرہیزاور اتحاد کی ضرورت

سید حسین حیدر زیدی


دشمنوں اور غیروں کا مسلط ہونا

مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ کے ایک برا نتیجہ دشمنوں کا مسلط ہونا ہے ، عراق اور افغانستان کے حالات پر جب غور و فکر کرتے ہیں تو اس کا اچھی طرح مشاہدہ ہوجاتا ہے ۔ افغانستان کے لوگوں نے کئی سال تک روسی فوج کا مقابلہ کیا اور اپنے ملی اور مذہبی جہاد کے اثر کی وجہ سے ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے اور کامیاب ہوگئے ، روس کے وہاں سے نکلنے کے بعد افغانستان میں اختلاف ہوگیا اور یہ اختلاف اس قدر بڑھے کہ ہر کسی نے اپنی قوم اور قبیلہ کی ایک پارٹی بنا لی اور امریکہ کی حمایت میں طالبان کے ایک گروہ نے ظہور کیا اور اس نے افغانستان کی ساری قدرت وطاقت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ، پھر امریکہ نے اپنے برے ہدف کو انجام دینے کے لئے ٹروریسٹ سے مقابلہ کے بہانہ میں افغانستان کو انتخاب کیا اور وحشت ناک حملوں کے ذریعہ طالبان اور ٹروریسٹ کو ختم کرنے کے لئے افغانستان پر قبضہ کرلیا اور بے گناہ مرد ،عورتوں کو خاک و خون میں غلطاں کردیا اس قبضہ اور حملہ کی وجہ سے افغانستان کے ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے ، امریکہ نے انہیں ڈموکراسی اور آزادی کا وعدہ دیا لیکن عملی طور سے ان کی ساری ہستی کو نابود کردیا ، امریکہ نے ان سے جو وعدے کئے وہ وہاں کے قبرستانوں کے لئے بھی مفید نہیں ہیں، کیونکہ ممکن ہے کہ امریکہ کبھی بھی ٹرورسٹ پر حملہ کرنے کے بہانہ سے ان کے مردوں پر ہوائی بمباری کرسکتا ہے ۔

عراق پر اس نے اس بہانہ سے حملہ کیا کہ عراق میں عام لوگوں کو قتل کرنے والا اسلحہ موجود ہے اور اس طرح اس نے مسلمان ملک کے تمام اہم چیزوں کو برباد کردیا ، عراق کے لوگوں کو ان کے گھروں سے باہر نکال دیااور آج عراق کی اقتصادی حالت بہت بری ہوگئی اور عام لوگوں کو قتل کرنے والا اسلحہ بھی وہاںسے برامد نہ ہوسکا ۔ لیکن امریکہ اور اس سے متحد ممالک خصوصا برطانیہ ، عراق کی دولت اور تیل کی وجہ سے وہاں سے نکلنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ وہاں کی داخلی پارٹیاں آپس میں جنگ کررہی ہیں ، برادرکشی اور اختلاف نے لوگوں کے چین و سکون کو سلب کرلیا ہے لوگوں کو نہ صرف آرام ملا بلکہ ان کے پاس جو کچھ آرام و سکون تھا وہ بھی انہوں نے گنوادیا اور اب فقرو ناامیدی کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔

ان دوملکوں میں اختلاف اور تفرقہ کے یہ نابود کرنے والے اثرات کا نتیجہ ہے ، اگر عراق اور افغانستان اپنے ملی اور داخلی اتحاد کو محفوظ رکھتے تو بیگانہ ممالک کے لوگ کبھی بھی ان کے ملک میں قدم رکھنے کی جرائت نہ کرتے ، وحدت کے علمبردار حضرت امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں : اپنے اتحاد کو محفوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ تمہارے ملک مستقل رہے (امام جنگ و شہادت ، ص ۲۹) ۔

امام علی (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۲۷ میں تفرقہ کے متعلق فرماتے ہیں :

”و خیر الناس فی حالا النمط الاوسط فالزموہ ، الزموا السواد الاعظم فان یداللہ مع الجماعة و ایاکم والفرقة! فان الشاذ من الناس للشیطان ، کما ان الشاذ من الغنم للذئب الا من دعا الی ھذا الشعار فاقتلوہ ، ولو کان تحت عمامتی ھذہ“۔

اور بہترین افراد وہ ہوں گے جو درمیانی منزل پر ہوں لہذا تم بھی اسی راستہ کو اختیار کرو اور اسی نظریہ کی جماعت کے ساتھ ہوجاؤ کہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اور خبر دار تفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوجاتا ہے جس طرح گلہ سے الگ ہوجانے والی بھیڑ ، بھیڑئیے کی نذر ہوجاتی ہے ۔ آگاہ ہوجاؤ کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے اسے قتل کردو چاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو ۔

تسلط شیطان

تفرقہ ØŒ شیطان Ú©Û’ مسلط ہونا کا سبب ہے ØŒ کیونکہ تفرقہ شیطان کا ایک فریب Ùˆ دھوکا ہے اور شیطان انسانوں Ú©Û’ درمیان اختلاف قائم کرتا ہے Û” حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) ان لوگوں Ú©Û’ متعلق جو مسلمانوں Ú©Û’ راستہ سے الگ ہوکر خوارج سے مل گئے اور اختلاف کا راستہ اختیار کرلیا ØŒ فرماتے ہیں  :  ” ان الشیطان الیوم قد استقلھم، ÙˆÚ¾Ùˆ غدا متبری منھم، Ùˆ متخل (مخل) عنھم۔ فحسبھم بخروجھم من الھدی ØŒ وارتکاسھم فی الضلال والعمی ØŒ وصدھم عن الحق، Ùˆ جماحھم فی التیہ۔

آج شیطان نے انہیں منتشر کردیا ہے اور کل وہی ان سے الگ ہو کر برائت و بیزاری کا اعلان کرے گا ۔ اب ان کے لئے ہدایت سے نکل جانا ۔ ضلالت اور گمراہی میں گر پڑنا ۔ راہ حق سے روک دینا اور گمراہی میں منہ زوری کرنا ہی ان کے تباہ ہونے کے لئے کافی ہے ۔( نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۸۱) ۔



back 1 2 3 4 5 next