رسول اکرم کا طریقہ حکومت – دوسرا حصه

سيد حسین حیدر زیدی


اس کا ایک حقیقی مصداق وہ مجاہد Ùˆ جنگجو انسان ہیں جنہوں Ù†Û’ جہاد میںسبقت Ú©ÛŒ اور ظالموں Ùˆ دین Ú©Û’ دشمنوں سے جنگ کرنے میں جن کا ماضی تابناک ہے ØŒ وہ انقلابی اور قربانی دینے والے لوگ جنہوں Ù†Û’ دوسروں سے پہلے میدان جہاد میں قدم رکھا اور گھر بار اور خانہ نشینی Ú©ÛŒ زندگی Ú©Ùˆ خیر آباد کہا (Ùˆ من یخرج من بینہ مہاجراً الی اللہ Ùˆ رسولہ ثم ید رکہ الموت فقد وقع اجرہ علی اللہ) Û”(ÛµÛ´)ØŒ  (یا عبادی الذین آمنوا ان ارضی واسعةفایای فاعبدون )(ÛµÛµ) اور رسول خدا کا وہ جملہ جو ہم Ù†Û’ پہلے بیان کیا ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ کر جانا خواہ ایک ہی بالشت ہو ہجرت شمار ہوتا ہے اور ایسا کرنے والے مہاجر Ú©Ùˆ ابراہیم اور محمد مصطفی کا ہمنشین قرار دیتے ہیں Û”

اس بنا پر ہجرت کا معیار رسول خدا کے حکومتی ارکان منتخب کرنے میں ایک مسلم اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی تھی جو گمان اور عقل پر مبنی ہے ۔جس پر آنحضرت نے عمل کیا ۔

پیغمبر اکرم  Ú©ÛŒ حکومت Ú©Û’ عمال اور گورنر ÙˆÚº Ú©ÛŒ دقیق تعداد اس بات Ú©ÛŒ نشاندہی کرتی ہے لہذا ہمیں بھی مجاہدت Ùˆ قربانی Ú©Ùˆ معیار سمجھنا چاہئے ،یعنی جس شخص Ù†Û’ جس قدر زیادہ جہاد اورکوشش Ú©ÛŒ ہے اور جس قدر جان Ú©ÛŒ بازی لگائی اور ہاتھ پیر خدا Ú©ÛŒ راہ میں پیش کئے ہیں اسی قدر اس Ú©Ùˆ فوقیت اور ترجیح دیں ۔لہذا اسلام Ú©ÛŒ راہ میں پہلے جہاد کرنا معیار ہے(السابقون الاولون) اس سلسلہ میں سب سے آگے اور مقدم ہیں ،شاید” مجاہد Ú©Ùˆ فوقیت“ مناسب ترین نام ہو ۔لہذا اس بنا پر مہاجر Ú©Ùˆ فوقیت دینا اس کا مصداق کوئی بھی ہو کسی مقام پر ہو، کسی زمانے میں ہو،ارکان Ú©Û’ انتخاب Ú©Û’ لئے ایک مثبت معیار ہے Û”

ب۔   انصار

مہاجرین کی طرح انصار بھی پیغمبر اکرم کے لئے ،افرادی قوت بڑھانے کے لئے اصل مآخذ اور ذریعہ تھے ۔ نیز ان کو فوقیت اور اہمیت حاصل تھی ۔انصار کا لقب بھی انہیں قرآن مجید نے عطا کیا ہے ۔

کتاب کشاف وغیرہ میں بیان ہوا ہے کہ رسول خدا نے انصار اور مہاجرین کے درمیان کیسے فضیلت کے بارے میں مساوات قائم کی بعض انصار خود کو قریش سے برتر و افضل سمجھتے تھے ۔رسول خدا نے ارشاد فرمایا -:(اے گروہ انصار کیا ایسا نہیں ہے کہ تم لوگ ذلیل تھے اور خداوند عالم نے تمہیں میرے وسیلہ سے عزیزاور محترم قرار دیا ؟سب نے کہا :بلے یا رسول اللہ -؛جی ہاں یا رسول خدا ایسا ہی ہے اس کے بعد آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا :کیا ایسا نہیں تھا کہ تم لوگ گمراہ تھے اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے ذریعہ سے ہدایت دی ؟سب نے جواب دیا :جی ہااے اللہ کے رسول ایسا ہی ہے ۔اس کے بعد آنحضرت نے ارشاد فرمایا:مجھے جواب کیوں نہیںدیتے ؟سب نے عرض کیا ،اے اللہ کے رسول کیا کہیں ؟تب آنحضرت نے فرمایا :میرے سوال کے جواب میں کہو کہ کیا ایسا نہیں تھا کہ آپ کی قوم نے آپ کو باہر نکال دیا اور ہم نے آپ کو جگہ دی اور اپنی پناہ میں رکھا؟کیا ایسا نہیں تھا کہ آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلایا اور ہم نے آپ کی تصدیق کی؟انہوں نے آپ کو ذلیل کیا اور ہم نے آپ کی مدد کی ؟اور اسی طریقہ سے آنحضرت ان کے اچھے صفات شمار کرتے رہے یہاں تک کہ سب لوگوں نے گھٹنے ٹیک دیئے اور تسلیم ہوکر عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول ہماری جسم و جان آپ پر فدا ہو جائے ۔(۵۶)

یعنی پیغمبر اکرم Ù†Û’ مہاجر اور انصار Ú©Û’ سامنے خوبصورت ،رسا اور منصفانہ بیان میں اشارے Ú©Û’ طور پر دونوں گروہوں Ú©ÛŒ فضیلتوں کا تذکرہ اور دونوں Ú©Ùˆ اپنے دو بازو Ú©ÛŒ حیثیت سے قرار دیا یا خندق بناتے ہوئے بیلچہ مارتے وقت یہ نعرہ لگایا :(اللھم اغفر الانصار والمہاجر ) Û”(ÛµÛ·) اے اللہ مہاجر اور انصار Ú©ÛŒ مغفرت فرما ۔گفتگو نصرت اور مد د Ú©Û’ بارے میں ہے جس کا اعلیٰ درجہ ایثار اور قربانی ہے ۔نصرت Ùˆ مدد Ú©ÛŒ اس قدر اہمیت ہے کہ ہر شخص انصاری Ú©Û’ لقب Ú©Ùˆ ایک تمغہ Ú©ÛŒ طرح اپنے شانوں پر سجائے ہوئے تھا اور اس پر فخر کرتا تھا ۔انصار اسی طرح تاریخ میں ”آخری امت میں سچی زبان  (لسان صدق فی الآخرین )“ والوں Ú©ÛŒ صورت میں باقی رہے ہیں ۔جابر ابن عبداللہ انصاری ،جنادہ انصاری ،ابو ایوب انصاری ،ابو دجانہ انصاری وغیرہ یعنی وہی فضیلت جو سادات اور بنی ہاشم Ú©Ùˆ حاصل ہے اور اپنے نام میں سید کا لفظ لگاکر خود Ú©Ùˆ ممتاز کرتے ہیں ۔انصاربھی اپنے نام Ú©Û’ آخر میں انصاری کا لفظ لگاکر ایسا ہی کرتے ہیں Û”

جنگ بدر،فتح مکہ اور پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری جنگوں اور غزووں میں انصار قابل ملاحظہ طور پر موجود تھے اور ان کی تعداد مہاجرین سے بھی زیادہ تھی ۔(۵۸)

ج Û”  تابعین

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے -:(والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعون باحسان رضی اللہ عنھم و رضو ا عنہ) ۔(۵۹)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next