رسول اکرم کا طریقہ حکومت – دوسرا حصه

سيد حسین حیدر زیدی


زرارہ Ú©Û’ مطابق امام محمد باقر صحیح روایت میں فرماتے ہیں :”مولفہ قلوبھم“ وہ قوم ہے جو ایک خدا Ú©ÛŒ عبادت کرتی ہے اور شہادتین ”لا الہ الا اللہ Ùˆ محمد رسول اللہ“زبان پر جاری کرتی ہے لیکن وحی Ú©Û’ بعض پہلووں پر Ø´Ú© کرتی ہے ۔خداوند عالم Ù†Û’ اپنے پیغمبر Ú©Ùˆ Ø­Ú©Ù… دیا کہ رقم اور ہدیہ Ú©Û’ ذریعہ ان Ú©Û’ دلوں Ú©Ùˆ موہ لیں تاکہ ان کا اسلام مضبوط ہو جائے ۔رسول خدا Ù†Û’ جنگ حنین میں قبیلہ قریش اور قبیلہ مضر Ú©Û’ سرداروں جیسے ابوسفیان وغیرہ Ú©Û’ ساتھ ایسا ہی کیا ،اس بات پر انصار ناراض ہو گئے اور رسول خدا  Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر ہو کر کہنے Ù„Ú¯Û’ :”اگر اجازت ہو تو ہمیں Ú©Ú†Ú¾ کہنا ہے ؛اور وہ یہ کہ اگر وہ مال جو آپ Ù†Û’ انہیں دیا ہے ØŒ اللہ کا Ø­Ú©Ù… ہے تو ہم تسلیم ہیں اور اگر آپ کا Ø­Ú©Ù… ہے تو ہم راضی نہیں ہیں ۔خداوند عالم Ù†Û’ ان Ú©Û’ اس اعتراض Ú©ÛŒ وجہ سے ان کا نور ختم کر دیا اور مولفہ قلوب Ú©Û’ لئے زکات سے ایک سہم(قصہ) قرار دیا۔(Û¸Û¶)

مولفہ قلوب ،مہاجرین کی طرح ایک عام عنوان ہے ۔جس کے مصادیق موجود ہیں ۔اس کا واضح مصداق ابو سفیان ،عیینہ اور دیگر افراد ہیں جو صدر اسلام میں موجود تھے ۔

دوسرے زمانوں میں اس کے دوسرے مصداق ہیں اور اس بات کی دلیل ،ادلہ امت کا مطلق ہونا ہے یعنی امت نے مولفہ قلوب کو کسی خاص جگہ یا خاص زمانے سے مخصوص اور منحصر نہیں کیا ہے نیز یہ دلیلیں دوسری حیثیت سے بھی عام ہیں یعنی جہاد سے مخصوص نہیں ہیں ۔یعنی جہاد کے علاوہ بھی ان کی تالیف قلوب کی جا سکتی ہے ۔مثال کے طور پر حکومت میں رکنیت کے لئے اور ان کی خصوصیات سے استفادہ کرنے کے لئے تالیف قلوب کی جا سکتی ہے ۔صاحب جواہر بھی مولفہ قلوب کے حکم کو جہاد سے مخصوص نہیں سمجھتے ۔جب کہ ہم چاہتے ہیں کہ مزید بات بتائیں اور وہ یہ کہ تالیف قلوب زکات کا مال دینے میں ہی منحصر نہیں ہے ۔اس لئے کہ جب کوئی حکم صفت پر لگتا ہے تو وہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ صفت اس حکم کی علت ہے یعنی صفت اس حکم کے آنے کی علت ہے کہ اس پر حکم آجائے ، ( اور جب صفت ،علت ہے تو جہاں بھی وہ صفت ہوگی یعنی علت ہوگی وہیں پر وہ حکم بھی جاری ہوگا اس لئے کہ حکم علت کے دارومدار ہے یعنی اگر علت ہوگی حکم بھی ہوگا علت نہیں تو حکم بھی نہیں )یعنی زکات کا مال دینے کی علت تالیف قلوب ہے یعنی تالیف قلوب اصل ہے علت ہے اور واجب زکات کے ما ل کو دینا تالیف قلوب کا ایک راستہ و طریقہ ہے ۔لہذا اس بنیاد پر دوسرے طریقے اور راستے بھی پائے جاتے ہیں جن سے ان کی تالیف و تشویق ہو سکتی ہے ۔مثلاًہم اس کو کوئی عہدہ یا منصب دے دیں تاکہ وہ اسلام کے عظیم مقصدکی طرف مائل ہو جائے ۔(۸۸)

لہذا ہم جس نتیجہ تک پہنچے ہیں وہ دو باتیں ہیں :اسلامی حکومت کے اداروں میں رکنیت بھی تالیف قلوب کا سبب بن سکتی ہے اور یہ کہ مقصد تالیف قلوب ہو ،یعنی اس طرح کہ آپ کسی لائق شخص کو پیسہ دے کر شوق دلائیں کہ وہ اسلامی ادارے کا رکن ہو جائے یا اس کو اسلامی ادارے کی رکنیت دے دیں تاکہ اس کی تالیف قلوب ہو جائے ۔ہم نے ان دونوں باتوں کو دلیلوں کے اطلاق اور حکم کے صفت پر موقوف ہونے سے سمجھا ہے ۔

اور اس طرح اسلامی حکومت Ú©Û’ لئے مولفہ قلوب انسانیت Ú©ÛŒ کان میں تبدیل ہو جائیں Ú¯Û’ یعنی اسلامی حکومت Ú©Ùˆ پبلک میں اپنی بنیاد مضبوط کرنے Ú©Û’ لئے نیز اسلامی معاشرہ میں حکومت Ú©ÛŒ جڑوں Ú©Ùˆ مستحکم کرنے Ú©Û’ لئے ،اس عظیم گروہ (مولفہ قلوب ) سے غفلت نہیں کرنا چاہئے ،جو امام جعفر صادق (علیه السلام) اور امام محمد باقر (علیه السلام) Ú©Û’ فرمان Ú©Û’ مطابق زیادہ لوگوں پر مشتمل ہیں اور ہر زمانے میں ہوتے ہیں :(یکون ذالک فی Ú©Ù„ زمان ) Û”(Û¸Û¹)البتہ ہمارا مقصد ان مولفہ قلوب Ú©Û’ لئے حکومت Ú©Û’ غیر کلیدی عہدوں پر ایک حصہ اور کوٹا معین کرنا ہے وہ بھی کسی فوقیت Ú©Û’ بغیر ،یعنی” مولفہ قلوب “مہاجرین ،انصار اور بنی ہاشم Ú©ÛŒ طرح نہیں ہیں کہ رکنیت Ú©Û’ لئے فوقیت رکھتے ہوں لیکن ان سے غافل رہنا بھی ٹھیک نہیں ہے ۔پیغمبر اکرم  Ù†Û’ مولفہ قلوب Ú©Ùˆ فقط زکات دےنے پر ہی اکتفا نہیں Ú©ÛŒ بلکہ انہیں ذمہ داریاں اور عہدے بھی دیئے ۔اس کا نمونہ ابو سفیان تھا کہ جس Ù†Û’ ایک جنگی حملہ Ú©Û’ لئے دو ہزار قریشی لوگوں Ú©ÛŒ سالاری حاصل Ú©ÛŒ Û”(Û¹Û°)اور عمرو عاص جو ”ذات سلاسل “میں سپہ سالار بنا Û”(Û¹Û±)بت پرست ابو سفیان Ú©Ùˆ یہاں تک کہ طائف Ú©Û’ بت توڑ Ù†Û’ Ú©ÛŒ ذمہ داری بھی مل گئی ۔عجیب بات ہے کہ اس Ù†Û’ بتوں Ú©Ùˆ توڑا اور ان کا ایندھن بنا کر فروخت کیا اور اس سے اپنا قرض ادا کیا Û”(Û¹Û²)وحشی Ú©Ùˆ بھی ،جب اہلی ہو گیا تو جنگی ذمہ داری حاصل ہوئی Û”(Û¹Û³)معاویہ بھی رسول خدا Ú©Û’ کاتبوں میں ہو گیا Û”(Û¹Û´)

۷۔دین

مقصود مسلمان ،یہودی ،عیسائی ،مجوسی اور بطور Ú©Ù„ÛŒ دینی اقلیت مراد ہیں کہ بہر حال دینی عنوان Ú©Û’ تحت انسانوں پر مشتمل ہے نیز اس بات میں ہمیں کوئی Ø´Ú© Ùˆ شبہ نہیں ہے کہ اسلام Ú©Ùˆ فوقیت ایک یقینی اور سو فیصد ترجیح اور فوقیت حاصل ہے اور غیر مسلمانوں Ú©Ùˆ بھی اگرچہ وہ لوگ اسلام یا جہاد Ú©ÛŒ طرف مائل بھی نہ ہوں یعنی مولفہ قلوب بھی نہ ہوں تب بھی ان Ú©Û’ لئے ایک حصہ رکھا جائے گا ۔رسول خدا  بھی کبھی ان Ú©Û’ ساتھ عہدو پیمان کیا کرتے تھے جیسے بنی قریظہ جو یہود ÛŒ تھے تاکہ ان Ú©ÛŒ طاقت Ú©Ùˆ کفار Ú©Û’ سامنے استعمال کریں ،یا ان سے ایک نمایندہ Ú©Ùˆ طلب کرتے تھے :”قل تعالوا الی کلمة“ Û”(Û¹Ûµ)یعنی ان Ú©Û’ نمایندہ ان Ú©Û’ ساتھ معاہدہ کرتے تھے لیکن کبھی بھی ان Ú©Ùˆ دست درازی کا موقع نہیں دیتے تھے Û”

اسلام تمام کافروں اور اہل کتاب سے بد بین نہیں ہے بلکہ ان لوگوں سے جو سلطنت اور قبضہ Ú©Û’ خواہاں ہیں سمجھوتا نہیں کرتا ۔لیکن جزیہ دینے والوں سے استفادہ کرنا میں وہ بھی ”بطانہ“ Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں بلکہ متخصص اور کار آمد لوگوں Ú©ÛŒ صورت میں تاکہ اسلامی حکومت ان پر مسلط رہے اور نظارت باقی رہے ۔کوئی حرج نہیں ہے رسول خدا Ú©ÛŒ سیرت بھی یہی تھی ۔ہمیں تاریخ میں ملتا ہے کہ :”شہر ابلہ “ کا ”یو حنا بن رویہ“نامی حاکم اپنی حکومت Ú©Û’ حدود سے سرزمین تبوک پر رسول خدا  Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر ہوا ۔جب کہ اس Ú©Û’ سینہ پر صلیب آویزاں تھی ۔اس Ù†Û’ وہاں آکر رسول خدا Ú©Ùˆ تحفہ دیا اور آنحضرت سے ایک ہدیہ دریافت کیا اور اس بات پر تیار ہو گیا کہ دین عیسیٰ پر باقی رہے گا لیکن جزیہ دے گا ۔پیغمبر اکرم Ù†Û’ بھی اس Ú©Û’ ساتھ معاہدہ کیا کہ عیسائی رہے نیز اس Ú©Û’ سپرد ایک ذمہ داری Ú©ÛŒ کہ جب مسلمان ’ابلہ‘سے گذریں تو ان Ú©ÛŒ مہمان نوازی اور خدمت کرے Û”(Û¹Û¶)

عام طور پر جو حاکم حجاز اور شام (سوریہ)Ú©ÛŒ سرحدوں پر زندگی بسر کرتے تھے اپنی قوم قبیلہ اور علاقہ میں نفوذ رکھتے تھے اور سب عیسائی تھے اور چونکہ یہ امکان تھا کہ روم Ú©ÛŒ فوج ان Ú©Û’ مقامی سپاہیوں سے فائدہ اٹھائے اس وجہ سے پیغمبر اکرم Ù†Û’ ان سب حاکموں Ú©Û’ ساتھ معاہدہ کیا کہ فریقین ایک دوسرے سے تعرض نہیں کرےں Ú¯Û’ Û”(Û¹Û·)یا ”اکیدر“  ”دومة الجندل“ کاعیسائی حاکم پیغمبر اکرم Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے لیکن جزیہ دینے Ú©Û’ لئے تیار ہو جاتا ہے Û”(Û¹Û¸)قابل توجہ بات یہ ہے کہ یو حنا اور اکیدر دونوں عیسائی رہتے ہیں لیکن پیغمبر اسلام Ú©Û’ باج گذار اور عامل ہو جاتے ہیں ۔یعنی اہل کتاب سے استفادہ کرنا ممکن بھی ہے اور جائز بھی ہے لیکن اس شرط Ú©Û’ ساتھ کہ وہ لوگ نظارت اور قبضہ Ú©Ùˆ اپنے ہاتھ نہ لیں ۔اس لئے کہ یہ کام ایک مسلم قانون (لن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلا) Ùˆ (یعطوا الجزیہ عن ید ÙˆÚ¾Ù… صاغرون) سے ٹکراوٴ اور منافات رکھتا ہے Û”

لہذا ”اسلام کی طرف رجحان کو “اولویت اور فوقیت حاصل ہے ۔لیکن غیر مسلم سے استفادہ کرنا بھی جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ ان کا قبضہ نہ ہو اور انہیں کوئی فوقیت حاصل نہ ہو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next