رسول اکرم کا طریقہ حکومت – دوسرا حصه

سيد حسین حیدر زیدی


اس آیت میں رسول خدا کے مددگاروں میں سے تین گروہوں کی طرف اشارہ ہوا ہے جنہیں اللہ کی رضایت و خوشنودی حاصل تھی ۔یہ تین گروہ درج ذیل ہیں : ۱۔مہاجرین ۲۔انصار ۳۔تابعین ۔تابعین کے بارے میں دو نظریہ ہیں :پہلا نظریہ یہ ہے کہ انہوں نے پیغمبر کو درک نہیں کیا بلکہ بعد میں آئے اور انہوں نے دوسرے معصومین کی مدد کی ۔دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ سابقین (مہاجر والانصار) یعنی اپنے سے پہلے والوں کے تابع ہو گئے ۔(۶۰) دوسرے نظریہ کے مطابق تابعین وہ لوگ ہیں کہ جو یا مہاجر ہیں یا انصار ۔البتہ دیر سے اس قافلہ نور سے ملحق ہوئے ہیں ۔لیکن (السابقون الاولون من الہاجرین والانصار) پہلے سبقت کرنے والے مہاجرین و انصار کا حصہ نہیں ہیں ،البتہ بعد میں ملحق ہونے والوں کا حصہ ہیں ۔بہر حال وہ بعد میں آئے ہیں اور خداوند عالم نے بھی ان سے اپنی خوشنودی کا اعلان کر دیا ہے: (رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ)

د Û”  مجاہدین

عام طور پر جہاد کا تذکرہ مہاجرین اور انصار کے ساتھ ہوا ہے بلکہ یہ کیوں نہ کہا جائے کہ جس چیز کی وجہ سے مہاجرین و انصار کو فضیلت ملی ہے وہ ان کا جہاد ہی تو ہے ۔قرآن مجید فرماتا ہے:(ان الذین آمنوا و ہاجروا و جاہدو اباموالھم و انفسھم فی سبیل اللہ والذین اووا و نصروا اولائک بعضھم اولیاء بعض) (۶۱) یا ارشاد فرماتا ہے: (و الذین آمنوا و ہاجروا و جاہدو ا فی سبیل اللہ والذین اووا و نصروا اولائک ھم المومنون حقاً لھم مغفرة و رزق کریم) (۶۲) یعنی ہجرت اور نصرت کا تیسرا حصہ بھی ہے جہاد کے نام سے اور نتیجہ میں وہ لوگ مومن ہو جاتے ہیں (مو منون حقاً) (رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ) اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی،( لھم مغفرة و رزق کریم) ان کے لئے ہے مغفرت اور رزق کریم۔نیز قرآن کریم صراحت کے ساتھ فرماتا ہے: ( فضل اللہ المجاہدین علی القا عدین اجراً عظیماً) (۶۳) ۔

سب Ú©Ùˆ ملاکر خلاصہ Ú©Û’ طور پر یہ کہا جائے کہ چار عنوان مہاجرین ،انصار،تابعین اور مجاہدین) جو ایک مآخذ اور با فضیلت مجموعہ Ú©ÛŒ منظر Ú©Ø´ÛŒ  کرتے ہیں نیز ان Ú©Ùˆ قربانی دینے والوں کا نام دیا جا سکتا ہے Û” رسول خدا قرآنی نص Ú©Û’ مطابق انہیں اہمیت اور ترجیح دیتے ہیں ۔لہذا اس بنا پر قربانی Ùˆ ایثار کرنا رکنیت یعنی ارکان منتخب کرنے Ú©Û’ لئے دوسرا معیار ہے ۔اسلامی حکومت Ú©Ùˆ چاہئے کہ اپنی طاقتوں اور ضرورتوں Ú©Ùˆ ان چار عظیم اور سرشار گروہوں سے پورا کرے اور اگر جنگ نہ ہو تو ایثار Ùˆ قربانی پیش کرنے والے مہاجرین ،انصار،اور تابعین وہ لوگ ہوں Ú¯Û’ جنہوں Ù†Û’ اسلام Ùˆ اسلامی حکومت Ú©Û’ لئے سب سے زیادہ رنج Ùˆ مشقت برداشت کیں ہیں ۔جن کا ماضی ایثار Ùˆ قربانی ،ہمدردی اور جہاد سے درخشاں Ùˆ تابناک ہو یعنی جنہوں Ù†Û’ سب سے زیادہ ایثار Ùˆ قربانی ،ہمدردی اور جہاد کیا ہو Û”

ÛµÛ”  مقامی اشخاص

اللہ تبارک Ùˆ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:(وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ) (Û¶Û´)ØŒ(ہو الذی بعث فی الامیین رسولاً منھم ) (Û¶Ûµ) (لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم)(Û¶Û¶)،کما ارسلنا فیکم رسولاًمنکم)(Û¶Û·) ۔رسول خدا عربی ،قرشی،مکی،مدنی،اور مقامی تھے اور خداوند عالم ان چار آیتوں میں اس نکتہ Ú©ÛŒ طرف اشارہ کرتا ہے ۔مقامی لوگ ،رسول اور امت Ú©Û’ درمیان سنخیت قائم کرنے کیلئے مناسب ہیں نیز جن  لوگوں Ú©ÛŒ پہچان ،بنیاد حسب Ùˆ نسب مشخص Ùˆ معلوم ہو وہ زیادہ کامیاب ہیں لہذا انہیں فوقیت حاصل ہے (Û¶Û¸) ۔عتاب ابن اسید اہل مکہ ہیں اور وہیں Ú©Û’ والی ہوئے ØŒ(Û¶Û¹)باذان Ú©Û’ خاندان Ú©Ùˆ یمن میں نصب کیا Û”(Û·Û°)عدی ابن حاتم اپنے قبیلہ Ø·ÛŒ میں ØŒ(Û·Û±)قیس ابن مالک ہمدان میں ØŒ(Û·Û²)عین فروہ مراء میں ØŒ(Û·Û³)مالک ابن عوف،جنگ حنین Ú©ÛŒ آگ بھڑکانے والا ،قبیلہ بنی سعد کا سخت ترین آدمی،پیغمبر اکرم Ú©Û’ ذریعہ قبیلہ نصر اور سلمہ کا سرپرست ہوا ØŒ(Û·Û´)معاذ ابن جبل یمنی Ú©Ùˆ یمن کا قاضی مقرر کیا گیا ØŒ(Û·Ûµ)ایک ثقفی جوان قبیلہ ثقیف میں منصوب ہوا ØŒ(Û·Û¶)پیغمبر اکرم(ص) کا خط یمامہ Ú©Û’ زمامدار ہوزہ ابن علی حنفی Ú©Û’ نام جس میں آن حضرت Ù†Û’ تحریر فرمایا:اسلام Ù„Û’ آوٴ تاکہ امان میں رہو اور تمہاری سلطنت Ùˆ طاقت باقی رہے،(Û·Û·)اسی مضمون کا خط غسان Ú©Û’ حاکم حارث Ú©Û’ نام ØŒ(Û·Û¸)اور اسی قسم Ú©Û’ خطوط حبشہ Ú©Û’ بادشاہ قیصر روم Ùˆ کسریٰ ایران Ú©ÛŒ جانب ارسال کئے جن سے مقامی لوگوں Ú©Ùˆ فوقیت دینے Ú©ÛŒ حکایت ہوتی ہے کہ اگر اسلام Ù„Û’ آتے تو وعدہ Ú©Û’ مطابق اپنے اپنے علاقوں پر حکومت کرتے ،فتح مکہ Ú©Û’ بعد ابو سفیان Ù…Ú©ÛŒ کومکہ میں مولفة قلوب Ú©Ùˆ اپنے گھر میں جمع کرنے Ú©ÛŒ ذمہ داری ملتی ہے(Û·Û¹)عثمان بن طلحہ Ù…Ú©ÛŒ Ú©Ùˆ کعبہ Ú©ÛŒ کلید برداری Ú©Û’ منصب پر باقی رکھتے ہیں ØŒ(Û¸Û°)امیر المومنین(ع) Ù†Û’ بھی قثم بن عباس Ù…Ú©ÛŒ Ú©Ùˆ مکہ کا عامل قرار دیا ØŒ(Û¸Û±)اور سھل بن حنیف انصاری Ú©Ùˆ جو مدنی تھے مدینہ میں اپنا عامل قرار دیا ØŒ(Û¸Û²)دوسرے علاقوں پر حضرت کا اس طرح کا کنٹرول نہیں تھا ،شام تو معاویہ Ú©Û’ اختیار میں تھا ،عراقی شہر بھی عام طور پر معاویہ Ú©Û’ وعدوں پر مست ہو جاتے تھے Ùˆ گر نہ مقامی اشخاص Ú©Ùˆ نصب کرنے Ú©ÛŒ تعداد اسی طرح امیر المومنین (علیه السلام) Ú©Û’ زمانے میں ہوتی جس قدر اس کا حجم رسول خدا Ú©Û’ زمانے میں ہمیں نظرآتا ہے ،البتہ ہم پہلے اشارہ کر Ú†Ú©Û’ ہیں Ú©ÛŒ شنسب جو ایرانی اور ہرات Ú©Û’ غور علاقہ سے تھے ،حضرت امیر المومنین (علیه السلام) Ú©ÛŒ جانب سے اپنے علاقہ پر حاکم مقرر ہوئے ØŒ(Û¸Û³)پیغمبر اکرم  اور حضرت علی(علیه السلام) Ú©ÛŒ سیرت میں اس مسئلہ Ú©Û’ بارے میں زیادہ چھان بین مقامی لوگوں Ú©Ùˆ ترجیح اور فوقیت دینے Ú©ÛŒ طرف ہماری مزید راہنمائی کرتی ہے Û”

پیغمبران الہی بھی خداوند متعال کی جانب سے عام طور پر اپنے اپنے علاقوں میں مبعوث اور منصوب ہوتے تھے؛سورہ ہود اور سورہ اعراف میں بار بار یہ جملہ سامنے آتا ہے :(الی عاد اخاھم ھود)،(الی ثمود اخاھم صالح)،(الی مدین اخاھم شعیبا)،(و لقد ارسلنا نوحاً الی قومہ )،(لقد ارسلنا موسیٰ بآیاتنا الی قومہ ان اخرج قومک من الظلمات الی النور) اور اسی طرح کی دوسری آیتیں جو ارکان کے انتخاب کرنے کے لئے مناسب معیار ، مقامی اشخاص کو ترجیح دینے کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہیں جو مقامی اشخاص کا معیار ہے ،یعنی غیر مقامی اشخاص کی بنسبت مقامی لوگ زیادہ بہتر اور زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ کوئی خاص مسئلہ جیسے حفاظت کے مسائل پیش نظر ہوں ،ورنہ ارکان کے انتخاب کے لئے مقامی کی طرف رجحان اور انہیں فوقیت دینے کا قاعدہ ایک عقلی، عرفی اور شرعی قاعدہ ہے ۔

۶۔ مولفة القلوب

سورہ توبہ کی ساٹھویں آیت میں” مولفة القلوب“ کا زکات کے مصرفوں میں سے ایک مصرف کے عنوان سے ذکر ہوا ہے ۔صاحب شرایع الاسلام کہتے ہیں :”المولفہ قلوبھم ھم الکفار الزین یتمالون الی الجہاد“ (۸۴)یعنی مولفہ قلوب وہ کفار ہیں جو جہاد کی طرف مائل ہوں ۔صاحب جواہر مولفہ قلوب کی تعریف میں علماء کے مختلف اقوال بیان کرتے ہیں اور آخر میں علماء کے اقوال ،روایات ،اجماع اور اختلاف نہ ہونے کے دعوے میں مکمل مطالعہ کے بعد تحقیق کے عنوان سے اپنا نظریہ اس طرح بیان کرتے ہیں :”ان المولفہ قلوبھم عام للکافرین الذین یراد الفتھم للجہاد او الاسلام و المسلمین الضعفاء العقائد لانھم خاصون باحد القسمین “ (۸۵)،یعنی مولفہ قلوب ان کافروں کو شامل ہے جن کی محبت جہاد یا اسلام کی طرف جذب کرنا مقصود ہو اور مولفہ قلوب کمزور عقیدہ مسلمانوں کو بھی شامل ہے اور ایسا نہیں ہے کہ ان دونوں میں کسی ایک قسم سے مخصوص ہو ۔

علاماء کے درمیان اس سلسلہ میں اختلاف ہے کہ مولفہ سے کون لوگ مراد ہیں ؟بعض علماء فقط کفار کو مولفہ قلوب کا مصداق سمجھتے ہیں ،بعض علماء ، کفار کوجہاد کی طرف مائل کرنے کے لئے اور بعض علماء اسلام کی جانب مائل کرنے کے لئے کفار کو مولفہ قلوب کا مصداق سمجھتے ہیں نیز بعض علماء کمزور عقیدہ مسلمانوں کو اس عنوان کا مصداق سمجھتے ہیں تاکہ وہ اپنے اسلام پر باقی رہیں ۔بطور خلاصہ مولفہ قلوب دو گروہ ہیں :ایک گروہ وہ ہے جس کو اسلام کی جانب جذب ہونا چاہئے اور دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جن کو اسلام سے دور نہیں ہونا چاہئے ،دوسرے الفاظ میں ،ایک گروہ کو آنا چاہئے اور دوسرا گروہ اسلام سے باہر نہیں جانا چاہئے ۔پہلا گروہ کفار ہیں یا جہاد کے لئے خواہ وہ مسلمان ہو جائیں یا نہ ہوں ،یا مسلمان ہونے کے لئے ،اور دوسرا گروہ کمزور عقیدہ مسلمان ہیں تاکہ وہ اسلام پر باقی رہیں ۔لہذا زکات کا ایک حصہ اسی مقصد سے منظور کیا گیا ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next