اسلام اور مغرب کی نظر میں دہشت گردی - پهلا حصه

سید حسین حیدر زیدی


Û·Û”  ” اسْلُکْ یَدَکَ فی جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضاء ÙŽ مِنْ غَیْرِ سُوء ٍ ÙˆÙŽ اضْمُمْ إِلَیْکَ جَناحَکَ مِنَ الرَّہْبِ فَذانِکَ بُرْہانانِ مِنْ رَبِّکَ إِلی فِرْعَوْنَ ÙˆÙŽ مَلاَئِہِ إِنَّہُمْ کانُوا قَوْماً فاسِقین“ Û”  ذرا اپنے ہاتھ Ú©Ùˆ گریبان میں داخل کرو وہ بغیر کسی بیماری Ú©Û’ سفید اور چمکدار بن کر برآمد ہوگا اور خوف سے اپنے بازوؤں Ú©Ùˆ اپنی طرف سمیٹ لو - تمہارے لئے پروردگار Ú©ÛŒ طرف سے فرعون اور اس Ú©ÛŒ قوم Ú©Û’ سرداروں Ú©ÛŒ طرف یہ دو دلیلیں ہیں کہ یہ لوگ سب فاسق اور بدکار ہیں Û”(سورہ قصص، آیت Û³Û²) Û”

ثُمَّ قَفَّیْنا عَلی آثارِہِمْ بِرُسُلِنا وَ قَفَّیْنا بِعیسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَ آتَیْناہُ الْإِنْجیلَ وَ جَعَلْنا فی قُلُوبِ الَّذینَ اتَّبَعُوہُ رَاٴْفَةً وَ رَحْمَةً وَ رَہْبانِیَّةً ابْتَدَعُوہا ما کَتَبْناہا عَلَیْہِمْ إِلاَّ ابْتِغاء َ رِضْوانِ اللَّہِ فَما رَعَوْہا حَقَّ رِعایَتِہا فَآتَیْنَا الَّذینَ آمَنُوا مِنْہُمْ اٴَجْرَہُمْ وَ کَثیرٌ مِنْہُمْ فاسِقُونَ

پھر ہم نے ان ہی کے نقش قدم پر دوسرے رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسٰی علیہ السّلام بن مریم علیہ السّلام کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا کردی اور ان کا اتباع کرنے والوں کے دلوں میں مہربانی اور محبت قرار دے دی اور جس رہبانیت کو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کرلیا تھا اور اس سے رضائے خدا کے طلبگار تھے اسے ہم نے ان کے اوپر فرض نہیں قرار دیا تھا اور انہوں نے خود بھی اس کی مکمل پاسداری نہیں کی تو ہم نے ان میں سے واقعا ایمان لانے والوں کو اجر عطا کردیا اور ان میں سے بہت سے تو بالکل فاسق اور بدکردار تھے ۔ (سورہ حدید، آیت ۲۷) ۔یہاں پر بھی ”رھب“ کے معنی خوف و ہراس کے ہیں ۔

Û¹Û”  لَاٴَنْتُمْ اٴَشَدُّ رَہْبَةً فی صُدُورِہِمْ مِنَ اللَّہِ ذلِکَ بِاٴَنَّہُمْ قَوْمٌ لا یَفْقَہُونَ ۔مسلمانوں ان Ú©Û’ دلوں میں اللہ سے بھی زیادہ تمہارا خوف ہے اس لئے کہ یہ قوم سمجھدار نہیں ہے Û”(سورہ حشر ØŒ آیت Û±Û³) ۔یہاںپر بھی ”رھبہ“ سے مراد خوف ہے اور مراد یہ ہے کہ منافقوں Ú©Û’ دلوں میں خدا وندعالم سے زیادہ تمہارا خوف ہے Û”

مندرجہ بالا تمام آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں ”ارھاب“کے لغوی معنی بیان ہوئے ہیں اور کسی بھی صورت میں ان سے عصر حاضر کے اصطلاحی معنی مراد نہیں ہیں، اسی طرح مذکورہ آیات کا مطالعہ کرنے سے اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں ”رھب“ کے مشتقات کے معنی منفی نہیں ہیں لیکن آج کے زمانہ میں ” ارھاب“ کے جواصطلاحی معنی بیان ہوتے ہیں ان میں منفی معنی موجود ہیں ۔

لیکن دہشت گردی کی بحث میں ہمیں اپنی توجہ کو ان آیات کی طرف مبذول کرنا چاہئے جن میں انسان کی جان ، مال او رآبروکی حفاظت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس بات اس چیز کی حکایت کرتی ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے انسانوں کی جان، مال اور آبرو کو خطرے میں نہیں ڈالاجاسکتا ہے ،مگر یہ کسی خاص جگہ پر اسلام نے کسی کے خون بہانے کی اجازت دی ہو۔ نمونہ کے لئے اس آیة کریمہ ” ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق “ ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہ کرو)(سورہ اعراف ، آیت ۱۵۱)کی بنیاد پر تمام انسانوں کی جانیں محتر م ہیں چاہے وہ شیعہ ہوں یا اہل سنت،مسلمان ہوں یا غیر مسلمان۔ صرف جن جگہوں پر شارع مقدس نے استثناء کیا ہے وہاں پر محدود افراد کے قتل کا اقدام کیا جاسکتا ہے ۔

اسی طرح اس بات سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے کہ قرآن کریم میں مفسد فی الارض اور محارب جو کہ دوسروں کی جان اور مال کو خطرہ میں ڈالتے ہیں ،کے لئے بہت سخت احکام بیان ہوئے ہیں ، اسی بات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام ہمیشہ دہشت گردی سے پرہیز کرتا ہے اور اسلام کے عظیم قوانین پر عمل کرنے سے معاشرہ کو دہشت گردی سے چھٹکارا ملتا ہے ، جو کچھ قرآن مجید میں آیا ہے اس سے زیادہ بربریت جائز نہیں ہے اور بہت آسانی سے کسی کی جان اور مال کو خطرہ میں نہیں ڈالا جاسکتا ہے ۔

مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ اٴَوْ فَسادٍ فِی الْاٴَرْضِ فَکَاٴَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَمیعاً ÙˆÙŽ مَنْ اٴَحْیاہا فَکَاٴَنَّما اٴَحْیَا النَّاسَ جَمیعا(سورہ مائدہ ØŒ آیت Û³Û²) Û”  جو شخص کسی نفس Ú©Ùˆ .... کسی نفس Ú©Û’ بدلے یا روئے زمین میں فساد Ú©ÛŒ سزا Ú©Û’ علاوہ قتل کرڈالے گا اس Ù†Û’ گویا سارے انسانوں Ú©Ùˆ قتل کردیا اور جس Ù†Û’ ایک نفس Ú©Ùˆ زندگی دے دی اس Ù†Û’ گویا سارے انسانوں Ú©Ùˆ زندگی دے دی۔

صرف دو گروہوں کو قتل کرنا جائز سمجھا گیا ہے : کسی کو قتل کرنے کے بدلے میں قتل کرنا اور زمین پر فساد پھیلانے والے کو قتل کرنا ۔ لہذا ان دونوں کے علاوہ کسی بے گناہ کا قتل کرنا جائز نہیں ہے اس آیت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ جواسلام اور قرآن کے نام پر دہشت گردانہ حملے کرتے ہیں وہ جائز نہیں ہیں، اور قرآن کریم کی آیات سے غلط استفادہ کرنے کی وجہ سے ایسے حکم صادر ہوتے ہیں ۔

حوالہ جات:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next