مرکزی ایشیا میں اسلام کی نئی زندگی



عربی نسل نے کہ جو مقامی لوگوں سے الگ رہتے تھے اپنی زبان کو محفوظ رکھا، لیکن شروع شروع میں مقامی لوگ قرآن مجید کو فارسی زبان میں ازبر کرتے تھے (۱۱) اُنہوں نے یکا یک عربی زبان پر مہارت حاصل کرلی، لیکن اس عمل کی مداومت نہیں کی گئی ۔ مرکزی ایشیا کے بہت سے شہر خلافت (اسلامی) کے ثقافتی قلمرو میں آگئے اور تقریباً ایک صدی تک اس علاقہ کے اسلامی تعلیم کے مہم مراکز، عربیوں کے زیر نظر رہے لیکن اس کے بعد سلجوقیان اور ترکوں کے ہاتھ میں آگئے اور مغلوں کے حملہ میں ویران ہوگئے ۔ (۱۲)

عریبوں کے ”آمو“ دریا اور ”سیر“ دریا پر حملہ کے بعد مرکزی ایشیا میں ایمان کے جدید شیوہ اور زندگی کے نئے طریقے کے ساتھ نئی اجتماعی زندگی شروع ہوئی ۔ مرکزی ایشیا کے ساکنوں نے عربیوں کے فلسفہ کو قبول کیا اور ان کی زبان کو اسلامی تہذیب و تعلیم کے لئے اقتباس کیا ۔ اس علاقہ کے اصلی شہر جیسے سمرقتد، بخارا، ترمذ، خوازم، مرو، خنجد اور گند اور نسا، ان کے ساکنوں کے اسلامی تفکرات کی وجہ سے مشہور تھے ۔ ان شہروں کے دوسری اسلامی سرزمینوں سے تجارتی فکری اور مذہبی روابط تھے ۔ اس علاقہ کے بہت سے دانشمند اس طرح ہیں: امام محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴۔۲۵۶ ھ ث) بزرگ محدَّث حافظ ابوعیسیٰ ابن عیسیٰ الترمذی (متوقی ۳۴۰ ھ ق) امام احمد بن محمد الخوارزمی (۳۹۳۔۴۸۴ ھ ق) بزرگ اسلامی متفکرَّ ابونصرطرحان حکیم الفارابی (متوفی ۳۳۹ ھ ق) زبردست عالم ابوریحان محمد بن احمد بیرونی (۲۶۲۔ ۳۴۸ ھ ق) اور مشہور و معروف دانشمند ابو علی سینا ۔

ابو علی سینا نے طبّ اور فسلفہ میں بہت سی کتابیں لکھیں ہیں (۱۳) اس کے مکتوب آثار میں سے طب کے موضوع پر ”قانون علم طب“ کے نام سے ایک کتاب ہے کہ جس کا بارہویں صدی عیسوی میں لاتینی زبان میں ترجمہ ہوا جو فیزیکس کے عالموں کے لئے بہت مفید ثابت ہوئی ہے اوروہ اس سے ہمیشہ استفادہ کرتے ہیں اور یہ کتاب بہت مشہور ہے (۱۴)

محمد بن موسیٰ خوارزمی جیسا کہ اس کی کتاب کے نام الجبر سے معلوم ہوتا ہے، وہ عرب میں علم حساب کا موجد ہے، وہ فقط نہ ایک حساب دان تھا بلکہ ایک منجم اور جغرافی دان بھی تھا، اس کے آثار، جبر ہندسی اور یونانی ہندسہ کا مجموعہ ہے جو آج علم حساب کی بنیاد سمجھی جاتی ہے ۔ محمد بن موسیٰ خوارزمی نے صدیوں کے لئے خوارزمیوں کے روایتی اور قدیمی علم حساب کو بہت سی ضرورتوں کو پورا کرنے لئے جیسے آپاشی، سیاحت، تجارت اور معماری میں کہ جو زیادہ تر یونانی اور ہندی تہذیب سے متاٴثر تھی قابل استفادہ بنایا (۱۵)

عباسیوں کے دورہٴ حکومت میں عربیوں کی حاضری بہت جلد ختم ہوگئی لیکن اس علاقہ کی سلطنت خراسانیوں کے قلمروئے قدرت میں باقی رہی، اسی وجہ سے اس علاقہ میں ابھی ایرانیوں کا نفوذ زیادہ تھا ۔

 Ù…رکزی ایشیا میں سب سے پہلے مسلمانوں Ú©ÛŒ مستقل حکومت ساسانیوں Ú©ÛŒ تھی کہ جو سن Û¸Û·Ûµ عیسوی میں ایک ایرانی النسل شخص Ú©Û’ ذریعہ وجود میں آئی اس Ù†Û’ اپنی حکومت کا مرکز، بخارہ کوقراردیا، ساسانی بادشاہت Ù†Û’ اپنی حکومت Ú©Û’ عروج میں ماوراء النہر، خوارزم اور ایران وافغانستان Ú©Û’ ایک وسیع علاقہ پر حکمرانی Ú©ÛŒ Û” (Û±Û¶) ساسانی حکومت Ú©ÛŒ داغ بیل ڈالنے والا اسماعیل بن احمد تھا کہ جس Ú©ÛŒ حکومت سن Û¸Û·Ûµ عیسوی سے Û¹Û¹Û¹ Ø¡ تک تھی، ساسانیوں Ù†Û’ ایک حد تک یوروپ اور چین Ú©Û’ ساتھ تجارتی روابط Ú©Ùˆ وسعت بخشی اسی لئے شاہ راہ ریشم اسی دوران وجود میں آئی، ساسانی حکومت Ù†Û’ اس علاقہ یعنی ماوراء النہر، خوارزم، سیردریا، ایران اور افغانستان Ú©ÛŒ تاریخ میں بہت بڑا کرادار ادا کیا، اس دوران فارسی اور تاجیکی زبان Ú©Ùˆ فروغ ملا اسی وجہ سے یہاں پر بڑے بڑےشعراء جیسے رودکی اور فردوسی Ù†Û’ اپنے تاریخی آثار Ú©Ùˆ تحریری Ø´Ú©Ù„ عطا کی، لیکن عربی زبان Ù†Û’ ایک علمی زبان ہونے Ú©Û’ عنوان سے اپنی حیات Ú©Ùˆ ادامہ دیا Û” (Û±Û·)

سولہویں صدی کے آغاز سے بخارا اور خیوہ کے خان نشین ،علاقہ کی دو بڑی طاقت ہونے کی حیثیت سے ظاہر ہوئے، ان کی قلمروئے حکومت ،بخارا تھا جو آج کے ا زبکستان کو بھی شامل ہے (۱۸) البتہ اس میں ترکمنستان، تاجیکستان اور افغانستان کابھی کچھ حصّہ شامل تھا، خیوہ تھوڑا چھوٹا علاقہ اورآرال دریاچہ کے جنوب میں واقع تھا اور اس کی قلمرو حکومت ترکمنوں، قزاقوں اور قاراقالپاقیوں کی سرزمین تھی، اٹھارویںعیسوی میں اس علاقہ میں واقع دیہاتوں سے کچھ لوگ تیسری بڑی طاقت کے عنوان سے ابھرے، ترکمن قزاق، قرقیز بادیا نشینوں کے طاقتور قبیلہ ای نظام کے بقایاجات ایسے ہی موجود ہے (۱۹)

مرکزوی ایشیا پر روسیوں کا تسلّط

روسیوں اور مسلمانوں کے درمیان سب سے پہلی جھڑپ ”ولگا“ کے مقام پر رونماہوئی، رقیب، خان نشینوں کی طاقت کے تجزیہ نے کہ جس میں آسترخان، کازان، کریمہ اور اردو اور سیری علاقہ کے تاتاری خاننشین شامل تھے، ترازی روسیوں کے لئے ایک سنہرا موقع فراہم کیا تاکہ وہ اپنی گذشتہ شکستوں کی تلافی کرسکیں اور اس طرح مغلوں نے فاتح تاتاریوں کو اپنا غلام بنالیا، شروع میں روسیوں نے ”ولگا“ علاقہ میں پیش قدمی کی، سن ۱۵۵۲ عیسوی میں قازان اور ۱۵۵۶ عیسوی میں استرخان کوروس میں منظم کرنے کی خاطر روسیوں کے حملہ شروع ہوئے، کریمہ خان سن ۱۷۷۱ءء میں فتح ہوگیا اور ۱۷۸۳ءء میں روس میں منضم کرلیا گیا، قازان کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد بزرگ ”باسیل“ کلیسا کے مخوف ایوان کو ماسکو کے میدان میں فتح کی جشن منانے کی غرض سے تعمیر کیا گیا اس کی گنبدوں کو پیاز کی شکل میں بنایا گیا تاکہ تاتاری خدمت گزاروں کے عمّاموں کی شبیہ بن جائے (۲۰)

روس Ú©Û’ سیاسی رہبروں Ù†Û’ سن ۱۷۴۰ءء میں مسجدوں Ú©Û’ ویران کرنے کا کھُلّم کھُلّا Ø­Ú©Ù… صادر کیا، تین سال Ú©ÛŒ مدت میں ”ولگا“ Ú©Û’ علاقے میں ÛµÛ³Û¶ مسجدوں میں سے Û´Û¸Û± مسجدیں ویران ہوگئیں(Û²Û±) یہ امر ۱۷۴۴ءء میں ایک تیز شورش کا نتیجہ ہوا لہٰذا قازان میں دونئی مسجدوں Ú©ÛŒ تعمیر Ú©ÛŒ اجازت دے دی گئی، جب دین Ú©Û’ بدلنے Ú©ÛŒ بے پناہ کوششوں ØŒ مدارس اور مساجد Ú©Û’ انہدام اور دینی رہبروں Ú©Û’ قتل عام Ù†Û’ روسیوں Ú©Ùˆ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیا تو انھوں Ù†Û’ اپنی سیاست اور استراجیک Ú©Ùˆ بدلا لہٰذا اس Ú©Û’ بعد سے مذہبی امور سیاست سے جدا ہوگئے، عیسائیوں Ú©Û’ ”ارتودوکس“ فرقے Ú©ÛŒ پہلی تبلیغی جماعت ”ملکہ آنالوانوا“ Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… سے قازان Ú©ÛŒ طرف روانہ Ú©ÛŒ گئی ”عیسائیوں Ú©Û’ امور کا نیا دفتر ۱۷۴۰ءء میں تاسیس ہوا (Û²Û²) اور آسترخان، نیژنی، نوگوارد اور ورونژ اس Ú©Û’ قلمرو نفوذ میں آگئے، اس پورے علاقے میں ان Ú©ÛŒ تنظیمیں تھی، ان تنظیموں Ù†Û’ اس علاقے Ú©Û’ عیسائیوں Ú©Ùˆ ادارہ کرنے Ú©Û’ لئے مسلمانوں Ú©Û’ اوپر ایک ٹیکس لاگو کردیا تھا، سن ۱۷۵۰میں حکومت Ú©Û’ سرکردگان ایک بحرانی حالت سے دوچار تھے اور عیسائیوں Ú©Û’ امور کا جدید دفتر بنام (K.N.Dٰٰ)آشکارا طور پر مسلمانوں کا مخالف تھا، لہٰذا یہ بات سبب ہوئی کہ  ۱۷۶۴ءء میں اس دفتر Ú©Ùˆ بند کردیا (Û²Û³)  ۱۷۸۴ءء میں کریمہ Ú©Û’ علاقے Ú©Û’ شہروں Ú©Û’ نام تبدیل کردیئے گئے اور کریمہ کا نام بھی ”تارویدہ“ اور مشہور شہر ”آق مسجد“ Ú©Ùˆ ”سمیفار وپل“ سے بدل دیا گیا، اٹھارویں صدی Ú©Û’ اواخر میں تاتاری نسل Ú©Û’ ایک لاکھ سے Ù„Û’ کر تین لاکھ افراد تک مرکزی استپ اور شمالی کریمہ میں کہ جو عثمانی بادشاہت Ú©Û’ بقایاجات تھے بے یار ومددگار آوارہ گھوم رہے تھے (Û²Û´)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next