شیعہ؛ کاروان انتظار کے قافلہ سالار



شیعی نقطئہ نظر سے ”ولایت“ کی عروة الوثقی (مضبوط رسی) سے متمسک ھونا وھی ”توسل و ابتغا اور امام ھی وسیلہ“ شمار ھوتا ھے؛ انسان امام اور حجت زمانہ کے ذریعہ خدا سے نزدیک ھو کر روحانی قرب و وصال حاصل کرتا ھے۔ امام ایک کامل انسان ھے اور کامل انسان اللہ کے اسمائے حسنی کا مظھر اور اللہ کے اسم اعظم کی تجلی اور حق سبحانہ و تعالی کے صفات جمال و جلال کی مکمل تجلی گاہ ھے۔ ”امام“ وھی مخلوق ھے جسے پروردگار حکیم نے اس کی تخلیق کرتے وقت فرشتوں پر فخر و مباھات کیا ھے۔ امام یعنی خلیفة اللہ اور حضرت بقیتہ اللہ کے سوا کوئی آخری خلیفہ نھیں ھے وھی جو رب العالمین کے جلوہ کا آئینہ دار اور ”وجہ اللہ“ ھے؛ اسی وجہ سے دعائے ندبہ میں امام زمانہ(علیہ السلام) کو ان الفاظ میں یاد کرتے ھیں:

”اَین وَجْہُ اللّٰہِ الَّذِی یتوَجَّہُ اِلَیْہِ الْاَوْلِیاءُ۔“

کھا ں ھے خدا کی تجلی کا مرکز جس کی طرف اولیا رخ کرتے اور لولگاتے ھیں شیعہ پاکیزہ خیالی اور صداقت کی نگاہ راز (نہ کہ آنکھ) سے اپنے ولی اور امام کے بے مثال جمال کا نظارہ کرتے اور ہجر کے دور اور غیبت کے زمانے میں فراق وجدائی کا غم اور اپنی جان کی دوری کا درد برداشت کرتے اور اسے اس بات پر مجبور کرتے ھیں کہ وہ اپنے دوست کی دھلیز پر سررکھے اور اپنی عقیدت کی داستان اس سے کہہ سنائے:

خوش می روی بہ تنھا،تن ھا فدای جانت

 

مدھوش می گذاری یاران مھربانت

خو د توتنھا خوش و خرم چلے جارھے ھیں یہ سارے جسم آپ پر فدا ھوں

 

اور اپنے مھربان عاشقوں کو مدھوش چھوڑے جارھے ھیں

آیینہ ای طلب کن تا روی خو د ببینی



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next