انسانی حیات، قرآن مجید کی نظر میں



اس بنیادی راستے کو طے کرنے لے لئے مختلف روشیں ہیں جس طرح خدا وند عالم کی شناخت کے لئےصدیقین کے طریقہ سلوک کو ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ صدیقین وہ لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ کواس کے ذریعہ پہچانتے ہیں جس طرح لوگ سورج کو نہ کسی کے خبر دینے ، نہ اس کی گرمی اور ہوا کی روشنی کے ذر یعہ پہچانتے ہیں بلکہ خود اسے دیکھ کر پہچانتے ہیں۔

چون سخن در وصف این حالت رسید ھم قلم بشکست وھم کاغذ درید ([13])

یعنی: جب زبان خدا کی توصیف کے لئے بڑھی تو قلم ٹوٹ گیا اور کا غذ پارہ پارہ ہوگیا۔

آفتاب آمد دلیل آفتاب گر دلیلت باید از وی رومتاب

یعنی: سورج طلوع ہوا تووہ  خود اپنی آپ دلیل ہے، اس Ú©Û’ لئے کسی دلیل Ú©ÛŒ ضرورت نہیں ہے۔

از وی ار سایہ نشانی می دہد شمس ہر دم نور جانی می دہد

یعنی سایہ (مخلوقات) اگرچہ کسی حدتک اس کی نشانی ہے لیکن سورج ہر لحظہ اسے نور حیات بخشتا رہتا ہے۔

سایہ خواب آرد تو را ہمچون سَمَر چون بر آید شمس انشقّ القمر ([14])

یعنی: جب سورج نکلتا ہے تو چاند، تمہاری نظروں سے اُجھل ہوجاتا ہے تو پھر سایہ تمہیں نیندمیں سُلادیتا ہے جس طرح رات Ú©ÛŒ تاریکی تمہیں نیند  میں سُلادیتی ہیں۔

امام Ú©ÛŒ شناخت کا بہترین راستہ بھی وہی صدیقین Ú©ÛŒ ولایت Ú©Û’ راہ پر چلنے Ú©ÛŒ روش ہے جس کا محور امام علیؑ کا قول ہے اور جس Ú©ÛŒ بنیاد، حقیقتِ امامت ومعنی ولایت Ú©Û’ ذریعہ امام Ú©Ùˆ پہچاننا ہے، اس راستے Ú©Ùˆ Ø·Û’ کرنا ایسا ہے کہ گویا ایک حق Ú©ÛŒ جستجو کرنےوالا کہ جس Ú©ÛŒ نگاہ نہایت عمیق Ùˆ دقیق ہے، وہ علم وعمل Ú©Û’ مشہور کمالات ØŒ عدل اوراحسان Ú©Ùˆ انسان کامل میں جلوہ کیے مشاہدہ کرتا ہے، اس طرح سے کہ ایسے انسان Ú©ÛŒ سنّت، سیرت وفطرت میں جتنا زیادہ غور وفکر کرتا ہے وہ سوائے جمال وجلال الٰہی Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ نہیں دیکھتا، وہ بھی ایسے کامل علم Ú©ÛŒ صورت میں جس میں سہوکی لغزش کا امکان نہیں ہے اور ایسا مکمل خطا سے پاک عمل صالح کہ جو اس  مخلّص بندہ میں ظہور پیدا کر Ú©Û’  اس Ú©Û’ پورے وجود میں تجلی کیے ہوئے ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next