انسانی حیات، قرآن مجید کی نظر میں



معرفت مفید اور شناخت غیر مفید

امام معصوم بہترین انسان ہے اور ہمیشہ انسان Ú©ÛŒ بہترین پسندیدہ صفتیں، عالی ترین اورکامل ترین رتبہ Ú©Û’ ساتھ اس میں پائی جاتی ہیں۔ امام معصوم میں اِنہیں مختلف فضائل انسانی کا ہونا سبب بنتا ہے کہ مختلف افراد، خواہ وہ کسی بھی دین یا عقیدہ سے تعلق رکھتے ہوں، ایسی شخصیت سے تھوڑی بہت آشنائی Ú©Û’ ساتھ خواہ وہ  وسیع علم اور عمیق نقطہ ونظر  Ú©Û’ حامل ہی کیوں نہ ہو ایک خاص جہت سے، امام معصوم Ú©ÛŒ پر کشش  مقناطیسی  شخصیت  Ú©Û’ کمالات Ú©ÛŒ طرف جذب ہو جاتے ہیں۔ اور اسی جہت Ú©Û’ تحت ان سے محبت کا دم بھرتے ہیں،البتہ جس مرتبہ Ú©ÛŒ معرفت ہو Ú¯ÛŒ اسی مرتبہ Ú©ÛŒ محبت بھی ہوگی۔ اس محبت کا واضح ترین نمونہ، حضرت امیر المومنین علی Ø‘ اورسید الشہداء اور حریت پسندوں Ú©Û’ رہبرحضرت امام حسین بن علیؑ Ú©Û’ ساتھ مختلف لوگوں کا محبت وعشق کا اظہار کرنا ہے۔

جو بھی Ú©Ú†Ú¾ حد تک اہل فکر ØŒ اخلاقی فضیلتوں سے مانوس اور تاریخ  میں مطالعہ کرنے والا ہو اس Ù†Û’ واقعہ کربلا Ú©Ùˆ قانونی حیثیت دی ہے اور اسی وجہ سے ہر شخص، حضرت امام حسینؑ سے کسی نہ کسی Ú©ÛŒ عنوان سے محبت رکھتا ہے۔ انسان Ú©ÛŒ پیاسی روح جب امام حسین بن علی  علیہ السلام  جیسی تابناک شخصیت  Ú©Û’ مد مقابل آتی ہے اور ان Ú©Û’ اخلاقی فضائل Ú©Û’ انوار کا مشاہدہ کرتی ہے تو اپنے اندر ان Ú©ÛŒ نسبت، خضوع وخاکساری Ú©ÛŒ حالت Ú©Ùˆ محسوس کرتی ہے خواہ وہ  انسان مسلمان ہویا کافر، شیعہ ہو یا غیر شیعہ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ سارے مبارک آثار جو امام حسین ؑیا دیگر ائمہ علیہم السلام کے امام معصوم کے عنوان سے معرفت پر ظاہر ہوتے ہیں اور سبب بنتے ہیں کہ انسان عقلانی زندگی کے ساتھ زندہ ہواور جاہلیت کی موت کے وہم سے رہائی حاصل کرے،آیا اس طرح کی محبت ومعرفت پر بھی مترتب ہوتے ہیں یانہ؟ بعض احادیث جیسے:

“مَن مٰاتَ وَلَم یَعرِف إِمٰامَ زَمٰانِہٖ مٰاتَ مٖیتَۃَ الجٰاھِلِیَّۃَ” ([15])

 Ø§ÙˆØ±

”اعرفوا اﷲ باﷲ والرسول بالرسالۃ وأُولی الامر بالمعروف والعدل والاحسان” ([16])

Ú©ÛŒ بنیاد پر عقلانی زندگی اور جاہلانہ موت سے رہائی، ایسے امام Ú©ÛŒ شناخت پر موقوف ہے کہ جس Ú©ÛŒ صفات،نیکیوں  پر عمل کرنا اور عدل واحسان کا قائم کرنا ہے، دوسرےلفظوں میں امام معصوم Ú©ÛŒ حقیقت ہی امامت Ú©ÛŒ معرفت ہے صرف انکی سطحی آشنائی اور ان Ú©Û’ انسانی فضائل Ú©ÛŒ طرف مجذوب ہونے پر موقوف نہیں ہے۔

جو شخص امام کواللہ کا ولی، اللہ کا خلیفہ، انسان کامل ،معصوم اور خدا Ú©ÛŒ جانب سے جنکی اطاعت واجب  ہو،اس حیثیت سے پہچانتا ہو، اور یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ امام زندہ وحاضر ہیں، ہمارے اعمال Ú©Ùˆ دیکھ رہے ہیں اور قیامت Ú©Û’ دن صاحب شفاعت ہیں، تو امام Ú©ÛŒ معرفت Ú©Û’ بے نظیر آثار سے فیضیاب ہوگا،عقلانی زندگی Ú©Û’ کمال تک رسائی ہوگی اور جاہلیت Ú©ÛŒ موت سے نجات پائے گا۔ چونکہ ہرموجود اپنے وجودی آثار Ú©Û’ ذریعہ پہچانا جاتا ہے، جیسا کہ پرورش پانااورتولید مثل کرنایہ نباتاتی زندگی Ú©Û’ آثار ہیں اور یہ آثار جس موجود سے ظاہر ہوتے ہیں، اسے نبات کا عنوان دیا جاتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی اس وقت، انسانی زندگی کا حامل ہوگا، جب اس سے انسانی حیات  Ú©Û’ آثار ظاہر ہوں، اور آیت

{ u‘É‹ZãŠÏj9 `tB tb%x. $wŠym ¨,Ïts†ur ãAöqs)ø9$# ’n?t㠚úï͍Ïÿ»s3ø9$#}([17])

تاکہ  جو زندہ یں انہیں تنبیہ کرے اور کافروں Ú©Û’ خلاف حتمی فیصلہ ہوجائے۔ Ú©ÛŒ بنیاد پر جیساکہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، کافر میں زندگی نہیں ہے اور چونکہ کفر، ایمان Ú©Û’ مقابلہ میں ہے اور نور  ایمان کا ØŒ انسان Ú©Û’ ظاہر وباطن میں ظہور ØŒ انسانی حیات Ú©Û’ آثارمیں سے ہے لہٰذا وہ معاشرہ جو ایمان Ú©ÛŒ روشنی سے محروم ہے تو اس Ù†Û’ نہ تو انسان Ú©ÛŒ حقیقی زندگی Ú©Ùˆ محسوس کیا ہے اور نہ اسے انسانی معاشرہ کہا جاسکتا ہے اگرچہ وہ امام Ú©Û’ برجستہ اخلاقی فضائل Ú©ÛŒ طرف Ú©Ú†Ú¾ رحجان  بھی رکھتا ہو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next