مدینہ منورہ اور جنت البقیع



لیکن آپکی قبر مطہر کے مخفی رہنے کا سب سے اہم سبب آپکی وصیت اور اس بات کی تاکید ہے کہ آپکے جسم مطہر کو رات کی تاریکی میں دفن کیا جائے ۔بعض روایات کے مطابق حضرت علی نے ٠٤ قبروں پر بقیع میں پانی کا چھڑ کائو کیا اور ٧ طرح کی قبریں تیار کیں تاکہ حضرت کی قبر کسی بھی طرح پہچانی نہ جا سکے ۔

بہر کیف! حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا مطہر جسد مخفی طور پر حضرت علی نے سپرد خاک کر دیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں جناب فاطمہ کی قبر بقیع میں واقع ہے اور کچھ لوگ یہ باور کرتے ہیں کہ آپکی قبر آپکے گھر میں ہے بعض دوسرے لوگ آپکی قبر کے سلسلہ میں یہ احتمال دیتے ہیں آپکی قبر مسجد رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں حضور کے گھر اور قبر کے درمیانی حصہ میں ہے

ہر شیعہ زائر چاہے دنیا کے کسی بھی گوشے سے زیارت کے لئے مدینہ میں وارد ہوا ہو حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مطہر کی زیارت ،مسجد نبی میں اقامہ نماز اور ائمہ بقیع اور دیگر پیغمبرصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لواحقین و اعزاءاور اہل خاندان کی زیارت کے بعد بیت الاحزان کا قصد کرتا ہے اس امید پر کہ اگر زہراءمرضیہ سلام اللہ علیہا کی قبر دسترس میں نہیں ہے تو کیا !اس مقام کی زیارت تو ہو جائے جو آپ سے منسوب ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ روایات کے مضمون کے مطابق بیت الاحزان بقیع میں ہی ہے اور تمام مورخین بغیر کسی استثناءکے اس امر کو بیان کرتے ہیں کہ بیت الاحزان بقیع کے جنوب میں اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے جوار میں ہے ۔اسکے مقابل دیگر بزرگ ہستیوں کے آستانوں میں داخل ہونے کا دروزاہ ہے

آیئے اب ہم انکی زیارت کے لئے آگے بڑھتے ہیں یہ قبور پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی باوفا زوجہ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کی نشانیوں سے متعلق ہے

٣ قبریں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو ہیں جو کہ تینوں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب بیٹیوں زینب ام کلثوم اور رقیہ کی قبریں ہیں زائرین ان مزارات پر پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اس یا دمیں کہ آپ اپنی ان بیٹیوں کے لئے دعاءکرتے تھے فاتحہ پڑھتے ہیں ۔

بعض مو رخین کے بیان کے مطابق ان میں سے کسی ایک کی عمر بھی ۳۰ سال سے متجاوز نہ ہوئی سب سے پہلے ام کلثوم نے جہان فانی سے رخت سفر باندھا پھر جناب رقیہ کی وفات ہوئی اور اسکے جناب زینب ،جناب فاطمہ ان تینوں بہنوں سے چھوٹی تھیں اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی چوتھی بیٹی تھیں ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ آپکا سن اپنی بہنوں سے کم تھا ام کلثوم کی وفات ٹھیک آپکے جنگ بدر سے ظفریاب ہو کر پلٹنے کے وقت ہوئی؛ رقیہ کی وفات ٥ یا ٦ ہجری میں جنگ خندق کے بعد ہوئی ؛جبکہ جناب زینب کی ایک الگ داستان ہے

جب مسلمان خاتون کی مشرکین سے شادی کی حرمت کے سلسلہ میں آیہ نازل ہوئی تو آپ اپنے شوہر سے جدا ہوگئیں اور اپنے والد کے پاس مدینہ آگئیں جنگ بدر میں آپکے شوہر ابوالعاص کو اسیر کر لیا جاتا ہے آپ نے اپنی ماں جناب خدیجہ کا وہ گردن بند جو شادی کے وقت انہوں نے اپنے گلے سے اتار کرآپکے گلے میں باندھا تھا اپنی شوہر کی آزادی کے فدیہ کے طور پر بھیجا پیغمبر اسلام صلیصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نظر جب گردن بند پر پڑی تو آپکی آنکھوں میں آنسو آگئے آپ نے حکم دیا گردن بندکو واپس کرکے اسیر کو آزاد کر دیا جائے چنانچہ آپکے شوہر مکہ پھر مکہ سے مدینہ واپس آجاتے ہیں اور جناب زینب کے گھر پناہ لیتے ہیں چند روز گزرنے کے بعد پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ جناب زینب اور آپکو ایک دوسرے سے ملا دیتے ہیں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں کی قبور سے کچھ ہی فاصلے پر آپکی زوجات کی قبور ہیں ۔موجودہ منابع کے مطابق رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زوجات دار عقیل میں دفن ہیں جناب عقیل کا گھر بقیع کے نواحی علاقے میں واقع ہے آپکے گھر میں عرصہ دراز کے بعد رسول خداصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زوجات کی قبور کے کتبہ اور پتھر ملے ۔

شاید اس بات کا مقصود یہ نہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زوجات کو جناب عقیل کے گھر میں دفن کیا گیا ہو کیونکہ ایک طرف تو جناب عقیل کا گھر ایک چھوٹا اور محقر گھر تھا اور دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ خاک کی فرسودگی اور قبور کی پہلی حالت کی تخریب اس بات کا باعث ہوئی ہے کہ قبور کی موجودہ صورت حال ایک دوسرے سے بہت نزدیک ہو جائے اور پھر ایسا لگنے لگے کہ جیسے ازواج پیغمبرصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبور جناب عقیل کے گھر میں ہیں اس سے ذرا آگے بڑھیں تو مالک ابن انس مذہب مالکی کے امام اور نافع الفقیہ غلام عبد اللہ ابن عمر کی قبور بقیع کے راستہ کے بائیں جانب پر حاشیہ پر واقع ہیں ۔اسی طرح ازواج رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبور اور عقیل ابن ابی طالب کی قبور کی پشت پر عبداللہ بن مسعود اور حدادبن اسود کی قبور تھیں جنکا آج کوئی نام و نشان نہیں ہے ۔ یہ دونوں بزرگ صحابی حضرت علی کے حامیوں میں تھے عبداللہ بن مسعود قرآن کے بڑے حافظوں میں تھے اور بعض آیات کی تلاوت میں انکی قرات ایک خاص اسلوب کی حامل تھی آپ شاید مہر و محبت کے پہلو سے حضرت علی کے بعد پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے نزدیک صحابی تھے پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آپکو بہت چاہتے تھے آپکو یہ اجازت حاصل تھی کہ ان مواقع کے علاوہ جب کوئی خاص ممانعت نہ ہو بغیر اجازت پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حجرے میں داخل ہو جائیں ۔چنانچہ ان سے نقل ہے کہ : میں نے ۷۰ سوروں کو پیغمبرصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں سے جاری ہوتے دیکھا اور انہیں سن کر حفظ کیا ہے کوئی بھی صحابی اس فضیلت میں میرا ہمسر نہیں ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کی قبور کے ایک سمت عقیل ابن ابی طالب اور عبداللہ ابن جعفر طیار کی قبور ہیں عقیل کی وفات کے بعد انکو انہیں کے گھر میں دفن کیا گیا ۔ آپ نابینا اور فقیر تھے بچپن میں آپ اپنے والد جناب ابوطالب کی خاص توجہ کے حامل تھے اسی زمانے میں جب مکہ میں ایک قحط پڑا تو عباس رضوان اللہ اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپنے یہ تجویز پیش کی کہ آپکے بچوں کو اپنے ساتھ لے جائیں تاکہ آپکو اہل و عیال کے خرچ میں عسرت و تنگ دستی کا سامنا نہ ہو اور کچھ آسودگی حاصل ہو جائے ۔جناب ابوطالب نے حضرت علی کو پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیا اورجناب جعفر کو جناب عباس کے حوالے کیا لیکن عقیل کو نابینا ہونے کی بنا پر اپنے ساتھ ہی رکھا ۔



back 1 2 3 4 5 6 next