کيا غدير کا هدف امام کا معين کرنا تها ؟



 Û¸Û”تجارب  الامم:ØŒ  ج  Û±   ص  ÛµÛ°Û¸  :  ابن  مسکویہ  ( متوفّی   Û´Û²Û±  Ú¾)

Û¹Û”  بحارالانوار  ØŒ  ج  Û³Û²  ص۳۵۔   مرحوم  مجلسی(رہ)  ( متوفی   Û±Û±Û±Û°   Ú¾ )     

 Ø­Ø±Ù مترجم :  امیر المؤ منین(ع) Ú©Û’ اس ارشاد سے تین باتوں Ú©ÛŒ مکمّل وضاحت ھوتی Ú¾Û’Û” (خطبہ Û¹Û² نہج البلاغہ)

Û±Û”  آپ (ع)Ú©Ùˆ خلافت Ú©Û’ سلسلے میں کوئی حرص اور طمع نھیں تھی اور نہ Ú¾ÛŒ آپ (ع) اس سلسلے میں کسی قسم Ú©ÛŒ تگ Ùˆ دو کرنےکے قائل تھے Û” الٰھی عھدہ عھدیدار Ú©Û’ پاس آتا Ú¾Û’ عھدیدار خود اسکی تلاش میں نھیں جاتا۔

 Û²Û” آپ (ع) کسی قیمت پر اسلام Ú©ÛŒ تباھی برداشت نھیں کر سکتے تھے آپ Ú©ÛŒ نظر میں خلافت کا لفظ اپنے اندر مشکلات اور مصائب Ù„Û’Û’ تھا اور قوم Ú©ÛŒ طرف سے بغاوت کا خطرہ نگاہ Ú©Û’ سامنے تھا لیکن اسکے باوجود اگر ملت Ú©ÛŒ اصلاح اور اسلام Ú©ÛŒ بقا Ø¡ کا دارومدار اس خلافت Ú©Ùˆ قبول کرنے میں Ú¾Û’ تو آپ اس راہ میں ھر قسم Ú©ÛŒ قربانی دینے Ú©Û’ Ù„Û’Û’ آمادہ Ùˆ تیارھیں Û”

۳۔ آ پ (ع) کی نگاہ میں امت کے لیے ایک درمیانی راستہ وھی تھا جس پر آج تک چل رھی تھی کہ اپنی مرضی سے ایک امیر چن لے اور وقتاً فوقتاً ضرورت پڑنے پر آپ (ع) سے مشورہ کرتی رھے آپ (ع) مشورہ دینے سے بھر حال گریز نھیں کرتے ھیں جس کامسلسل تجربہ ھو چکا ھے ۔ اور اس مشاورت کو آپ نے وزارت سے تعبیر کیا ھے ۔ وزارت فقط اسلامی مفاد تک بوجھ بانٹنے کے لےے حسین ترین تعبیر ھے ۔ ورنہ جس حکومت کی امارت قابل قبول نھیں اسکی وزارت بھی قابل قبول نہ ھوگی ۔

” یٰااٴَشْبٰاہَ الرِّجٰالِ وَلاَرِجٰالَ!حُلُوْمُ الْاٴَطْفٰالِ،وَعُقُوْلُ رَبَّات الْحِجٰالِ لَوَدِدْتُ اٴَ نِّیْ  لَمْ اٴَ رَکُمْ  وَلَمْ اٴَعْرِفکُمْ مَعْرِفَةً وَاللهجَرَّتْ نَدَماً وَاٴَ عَقَبَت سَدَ ماً قَا تَلَکُمُ الله ُ! لَقَدْ مَلَاٴْتُمْ  قَلْبی قَیْحاً وَشَحَنْتُمْ صَدْری غَیْظاً وَجَرَعْتُمُوْنیْ نُغَبَ التَّہْمٰام اٴَنْفٰاساً وَاٴَفْسَدْتُمْ عَلَیَّ  رٰاٴْیِیْ بِالْعِصْیٰان وَالْخِذْلاَنِ حَتّیٰ لَقَد   قٰالَتْ قُرَیْش إِنَّ اٴبْنَ اٴَبیْ طٰالِبٍ رَجُل ٌشُجٰاع ٌ،  وَلٰکِنْ لاَعِلْمَ لَہُ بِالْحَرْبِ لِلّٰہِ اٴَبُوْھُمْ وَھَلْ اٴَحَدٌمِنْھُمْ اٴَشَدُّلَھٰامِرٰاسا وَاٴَ قْدَمُ فیْھٰامَقٰاماً مِنِّیْ لَقَدْنَھَضْتُ فِیْھٰاوَمٰابَلَغْتُ الْعِشْرِیْنَ وَھٰااٴَنَذَا قَدْذَرَّفْتَ عَلَی السِّتِّیْنَ وَلٰکِنْ لاَ رَاٴْیَ لِمَنْ لاَ یُطٰاعُ ۔“[11]

 ØªØ±Ø¬Ù…ہ ( اے مرد ÙˆÚº Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ وصورت والو،  اور ØŒ  واقعا،  نا مردو ØŒ تمھاری فکریں بچوں جیسی اور تمھاری عقلیں حجلہ نشین دلھنوں جیسی ھیں میری خواہش تھی کاش میں تمھیں نہ دیکھتا  اور تم سے متعارف نہ ھوتا، جس کا نتیجہ صرف ندا مت اور رنج Ùˆ ا فسوس Ú¾Û’ الله تمھیں غارت کرے تم Ù†Û’ میرے دل Ú©Ùˆ پیپ سے بھر دیا،  اور میرے سینہ Ú©Ùˆ رنج وغم سے چھلکا دیا Ú¾Û’ ØŒ تم Ù†Û’ ھر سانس میں Ú¾Ù… Ùˆ غم Ú©Û’ گھونٹ پلائے ØŒ اور اپنی نافرمانی ا ور سر Ú©Ø´ÛŒ سے میری رائے Ú©Ùˆ بھی بیکار Ùˆ بے ا ثر بنا دیا Ú¾Û’ ،یھاں تک کہ اب قریش والے یہ Ú©Ú¾Ù†Û’ Ù„Ú¯Û’ ھیں کہ فرزند ابو طالب بھادر تو ھیں لیکن انھیں فنون جنگ کا علم نھیں Ú¾Û’ ØŒ

ا لله ان کا بھلا کرے ØŒ کیا  اٌن میں کوئی بھی ایسا Ú¾Û’ ØŒ جو مجھ سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتا Ú¾Ùˆ  ØŒ اور مجھ سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ سے کوئی مقام رکھتا Ú¾Ùˆ ØŒ میں Ù†Û’ جھاد Ú©Û’ لیے اس وقت قیام کیا Ú¾Û’ جب  میری  عمر Û²Û° سال بھی نھیں تھی اور اب تو(Û¶Û°) سال Ú¾Ùˆ Ú†Ú©ÛŒ Ú¾Û’ لیکن کیاکیا جائے جس Ú©ÛŒ ا طاعت نھیں Ú©ÛŒ جاتی اس Ú©ÛŒ رائے بھی کوئی رائے نھیں ھوتی Û”

اب اس مقام پر یعنی انتخاب الھی اور ابلاغ  پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©Û’ بعد لوگوں Ú©ÛŒ عمومی بیعت اور ملت کا انتخاب احکام الھی Ú©Û’ اجرا Ø¡ میں اپنا اھم کردار ادا کرتا Ú¾Û’ اور حکومت امام  Ú©Û’ لیے عملی راہ فراھم کر تی Ú¾Û’ Û” غدیر خم Ú©Û’ ر وزیہ تینوں مراحل باخوبی اور تمام تر ز یبائیّوں Ú©Û’ ساتھ ا پنے ا نجام Ú©Ùˆ Ù¾Ú¾Ù†Ú†Û’ یھاں تک کہ حکومت Ú©Û’ پیاسوں Ú©Û’ د لوںمیں دشمنی Ú©ÛŒ آگ بھڑک ا Ù¹Ú¾ÛŒ ا Ù†Ú¾ÙˆÚº Ù†Û’ جو Ú©Ú†Ú¾ بھی چاھا انجام دیا ØŒ اور تاریخ میں ھمیشہ Ú©Û’ لیے اپنے آپ Ú©Ùˆ  بد نام کر لیا۔کیونکہ :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 next