حضرت فاطمه زبراء(س) کى مظلومانه شهادت کى مناسبت پر



وہ فاطمہ(س) کہ جس کى مرضي پيغمبراکرم(ص) کى مرضي ہے اور پيغمبر(ص) کى مرضي خدا کى رضا ہے، جس کاغضب پيغمبر(ص) کا غضب اور پيغمبر کا غضب خدا کا غضب ہے (2۷)۔

وہ فاطمہ(س) جس کى مادري پر ھمارے ائمہ(ع)،جوعالم انسانيت کے کامل ترين افراد ہيں، فخر کرتے ہيں (28)۔

وہ فاطمہ(س) جس نے اپني مختصر سي حيات (29) ميں ھي شيعيت کو ھميشہ کے لئے بقا عطا کیا۔

وہ فاطمہ(س) جس کے روشن و جلي خطبہ (30) نے چاھنے والوں اور دشمنوں کو انکشت بدندان کر ديا۔

وہ فاطمہ جس نے اپنے پدر بزرکوار کى موت کى عظيم ترين مصيبت اور اپنے شوھر نامدار کى مظلوميت کو ،اپنے نالہ وشيون (31) سے تمام لوگوں کو ا ٓگاہ کیا،اور ا ٓج بھي وہ اندوہ ناک ا ٓواز مدينہ کى گليوں گونج رھي ہے۔

ھميں فخر ھے کہ دين کے حقيقي معارف ا ٓپ(س) کى اولاد طاھرہ کے ذريعہ ھي ھم تک پہونچے،ايسے معارف جو عقل سليم کے مطابق اور ھر زمانے کے ساتھ سازگار ھيں، ايسے جامع معارف جو بشريت کى تمام حوائج کى جواب گو ھيں۔ ا ٓپ اور ا ٓپ(س) کى اولاد کے مکتب سے تمسک کے نتيجہ ميں ھي ملت ايران کو عزت و استقلال نصيب ھوا۔

اسي لئے اسلام کے سخت ترين دشمن اس نتيجہ پر پہونچے کہ اگر اس قوم کو مٹاناھے تو ان سے فاطميہ، عاشورا اور شعبان و رمضان چھين ليا جائے۔ اس وقت اپنے ناپاک ارادوں کو جامہ عمل پہنايا جا سکتا ھے۔

يہاں پر دوبارہ يادا ٓوري ضروري ہے کہ ايام عزا کا احترام اور مجالس عزا کا انعقاد امام خميني(رہ) کا وطيرہ تھا۔اور اس عمل کا وحدت اسلامي کے مسئلہ سے کوئي تعلق نہيں ہے۔

جس وحدت اسلامي Ú©Ù‰ امام خميني(رہ) اور ا ٓية اللہ بروجردي(رہ) تاکىد فرماتے تھے اس کا يہ مطلب نہيں تھا  Ú©Û شيعہ اپنے مسلم عقائد سے دستبردار ہو جائيں يا اس Ú©Ùˆ فراموش کرديں،بلکہ وحدت اسلامي سے مراد تمام مسلمانوں کا عالمي استعمار Ú©Û’ خلاف متحد رہنا ہے جس کا خيال يہ ہے کہ قدرت اور طاقت صرف اس Ú©Û’ پاس ہے اور صہيونيوں Ú©Û’ اشارے پر اسلام Ú©Ù‰ بنيادوں Ú©Ùˆ نابود کرنے Ú©Ù‰ سوچ رہے ہيں۔

لہذا تمام شيعوں پر ضروري ہے کہ 3 جمادي الثانيہ جس دن اسلامي جمہوريہ ميں تعطيل کا بھي اعلان کیا گيا ہے ،مجالس منعقد کريں اور سڑکوں پر جلوس نکاليں تاکہ ا ٓنحضرت کے حقوق کا ايک تھوڑا سا حصہ ادا کر سکىں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next