توحيد



3.   اس Ú©ÛŒ پاک ذات لامتناہی ہے:

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کا وجود لامتناہی ہے از نظر علم Ùˆ قدرت ØŒ Ùˆ از لحاظ حیات ابدیت Ùˆ ازلیت ØŒ اسی وجہ سے  وہ زمان Ùˆ مکان میں نہیں پایا جاتا کیونکہ جو بھی زمان Ùˆ مکان میں پایا جاتا ہے وہ محدود ہوتا ہے۔ لیکن اس Ú©Û’ باوجود وہ ہر وقت اورہر جگہ موجود رہتاہے کیونکہ وہ فوق زمان Ùˆ مکان ہے   Ùˆ هو الذی فی السماء ا له وفی الارض ا له Ùˆ هو الحکیم العلیم  ÛŒØ¹Ù†ÛŒ (الله )وہ ہے جو زمین میں بھی موجود ہے اور آسمان مین بھی اور وہ علیم وحکیم ہے   Ùˆ هو معکم اینما کنتم والله بما تعملون  Ø¨ØµÛŒØ±   یعنی تم جہاں بھی ہو وہ تمھارے ساتھ ہے اور جو تم انجام دیتے ہو وہ اس Ú©Ùˆ دیکھتا ہے۔

ہاں وہ ہم سے خودہماری ذات سے زیادہ نزدیکتر ہے، وہ ہماری روحو Ùˆ جان میں ہے، وہ ہر جگہ موجود ہے لیکن پھر بھی اس Ú©Û’ لئے کوئی  مکان نہیں ہے ونحن اقرب الیه من حبل الورید یعنی ہم اس سے اس Ú©ÛŒ شہ رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

هو الاول ولآخر Ùˆ الظاهر والباطن Ùˆ هو بکل Ø´ÛŒ Ù´ علیم   یعنی وہ (الله) اول Ùˆ آخر وظاہر Ùˆ باطن ہے اور ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

ہم جو قرآن میں پڑھتے ہیں   ذوالعرش المجید وہ صاحب عرش Ùˆ عظمت ہے۔ یہاں پر عرش سے مراد کوئ اونچا شاہی تخت نہیں ہے۔ اور ہم قرآن Ú©ÛŒ ایک دوسری آیت میں جو  یہ پڑھتے ہیں الرحمن علی العرش استوی Ù°   یعنی رحمن (الله) عرش پر ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ الله ایک خاص مکان میں رہتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے جہان مادی اورجہان ماوراء  طبیعت پر اس Ú©ÛŒ حاکمیت ہے۔ کیونکہ اگر ہم اس Ú©Û’ لئے کسی خاص مکان Ú©Û’ قائل ہو جائیں Ú¯Û’ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ محدود کردیا ہے، اس Ú©Û’ لئے مخلوقات Ú©Û’ صفات ثابت کر دئے ہیں اور اس Ú©Ùˆ دوسری تمام چیزوں Ú©ÛŒ طرح مان لیا جب کہ قرآن خود فرماتا ہے کہ  لیس کمثله Ø´ÛŒ Ù´ یعنی کوئی چیز اس Ú©Û’ مثل نہیں ہے۔ ولم یکن له کفواً احد یعنی اس Ú©Û’ مانند Ùˆ مشابہ کسی چیز کا وجودنہیں ہے۔

4.   نہ وہ جسم ہے اور نہ ہی دکھائی دیتا ہے:

ہمار عقیدہ ہے کہ الله آنکھوں سے ہر گز دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ آنکھوں سے دکھائی دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک جسم ہے جس کو مکان، رنگ، شکل اور سمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تمام صفتیں مخلوقات میں پائی جاتی ہیں اور الله اس سے برتر و بالا ہے کہ اس میں مخلوقات کی صفتیں پائی جائیں۔

اس بنا پر الله کو دیکھنے کا عقیدہ ایک طرح کا شرک ہے۔ کیونکہ قرآن فرماتا ہے کہ لاتدرکه الابصار و هو یدرک الابصار و هو اللطیف الخبیر یعنی آنکھیں اسے نہیں دیکھتیں مگر وہ سب آنکھوں کو دیکھتا ہے اور وہ بخشنے والا اور جاننے والاہے۔

اسی وجہ سے جب بنی اسرائیل Ú©Û’ بہانے باز لوگوں Ù†Û’ جناب موسی علیہ السلام سے الله Ú©Ùˆ دیکھنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ لن نؤمن Ù„Ú© حتی Ù° نری الله جهرةً   یعنی ہم آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں Ú¯Û’ جب تک Ú©Ú¾Ù„Û’ عام الله Ú©Ùˆ نہ دیکھ لیں۔ حضرت موسی علیہ السلام ان Ú©Ùˆ کوہ طور پر Ù„Û’ گئے اور جب الله Ú©ÛŒ بارگاہ میں ان Ú©Û’ مطالبہ Ú©Ùˆ دہرایا تو ان Ú©Ùˆ یہ جواب ملا کہ  Ù„Ù† ترانی ولکن انظر الی Ù° الجبل فان استقر مکانه فسوف ترانی فلما تجلی Ù° ربه للجبل جعله دکاً وخرموسی Ù° صعقا فلما افاق قال سبحانک تبت الیک وانا اول المومنین   یعنی تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکو Ú¯Û’ لیکن پہاڑ Ú©ÛŒ طرف نگاہ کرو اگر تم اپنی حالت پر باقی رہے تو مجھے دیکھ پاؤ Ú¯Û’ اور جب ان Ú©Û’ رب Ù†Û’ پہاڑ پر جلوہ کیا تو انھیں راکھ بنادیا اور موسیٰ بیہوش ہوکر زمین پر گر Ù¾Ú‘Û’ØŒ جب ہوش آیا تو عرض کیا کہ پالنے والے تو اس بات سے منزہ ہے کہ تجھے آنکھوں سے دیکھا جا سکے میں تیری طرف واپس پلٹتا ہوں اور میں ایمان لانے والوں میں سے پہلا مومن ہوں۔ اس واقعہ سے ثابت ہوجاتا ہے کہ خداوند متعال Ú©Ùˆ ہر گز نہیں دیکھا جاسکتا۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ جن قرانی آیات و اسلامی روایات میں الله کو دیکھنے کا تذکرہ ہواہے وہاں پر دل کی آنکھوں سے دیکھنا مردا ہے نہ کہ چشم ظاہری سے کیونکہ قرآن کی آیتیں ہمیشہ ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں القرآن یفسر بعضه بعضاً



back 1 2 3 4 5 6 next