توحيد



ہمارا عقیدہ ہے کہ عبادت صرف الله Ú©ÛŒ ذات سے مخصوص ہے۔ (جیسا کہ  Ø§Ø³ بارے میں توحیدعبادت Ú©ÛŒ بحث میں اشارہ کیا گیا ہے) اس بنا پر جو بھی اس Ú©Û’ علاوہ کسی دوسرے Ú©ÛŒ عبادت کرتا ہے وہ مشرک انجامدیتا ہے۔تمام انبیاء Ú©ÛŒ تبلیغ بھی اسی نکتہ پر مرکوز تھی اعبدوا الله مالکم من اله غیرہ یعنی الله Ú©ÛŒ عبادت کرو اس Ú©Û’ علاوہ تمھارا اور کوئی معبود نہیں ہے ۔یہ بات قرآن کریم میں پیغمبروں سے متعدد مرتبہ نقل ہوئی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم تمام مسلمان ہمیشہ اپنی نمازوں میں سورہٴ حمد Ú©ÛŒ تلاوت کرتے ہوئے اس اسلامی نعرہ Ú©Ùˆ دہراتے رہتے ہیں ایاک نعبد وایاک نستعین یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ الله Ú©Û’ اذن سے پیغمبروں Ùˆ فرشتوں Ú©ÛŒ شفاعت کا عقیدہ جو  Ù‚رآن کریم Ú©ÛŒ آیات میں بیان ہوا ہے عبادت Ú©Û’ معنی میں ہے۔

پیغمبروں سے اس طر ح کا توسل جس میں یہ خواہش کی جائے کہ پروردگار کی بارگاہ میں توسل کرنے والے کی مشکل کاحل طلب کریں ،نہ تو عبادت شمار ہوتا ہے او رنہ ہی توحید افعالی یا توحید عبادی کے منافی ہے ۔اس مسئلہ کی شرح نبوت کی بحث میں بیان کی جائے گی۔

9.   ذات خدا Ú©ÛŒ حقیقت سب سے پوشیدہ ہے:

ہماراعقیدہ ہے کہ اس Ú©Û’ باوجود کہ یہ دنیا الله Ú©Û’ وجود Ú©ÛŒ نشانیوں سے پر ہے، پھر بھی اس Ú©ÛŒ ذات Ú©ÛŒ حقیقت کسی پر روشن نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس Ú©ÛŒ ذات Ú©ÛŒ حقیقت کوسمجھ سکتا ہے۔ کیونکہ اس Ú©ÛŒ ذات ہر لحاظ سے لا محدود اور ہماری ذات ہر لحاظ سے محدودہ، لہٰذا ہم اس Ú©ÛŒ ذات کا احاطہ نہیں کرسکتے الا انه بکل Ø´ÛŒ Ù´ محیط یعنی جان لو کہ اس کا ہر چیز پر احاطہ ہے ۔یا یہ آیت کہ  ÙˆØ§Ù„له من ورائهم محیط   یعنی الله ان سب پر احاطہ رکھتا ہے Û”

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک مشہور ومعروف حدیث ہے کہ: ” ماعبدناک حق عبادتک واما عرفناک حق معرفتک “ یعنی نہ ہم نے تیرا حق عبادت ادا کیا اور نہ حق معرفت۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس طرح ہم اس کی ذات پاک کے علم تفصیلی سے محروم ہیں اسی طرح علم اجمالی ومعرفت سے بھی محروم ہیں اور معرفة الله کے باب میں صرف ان الفاظ پر قناعت کرتے ہیں جن کا ہمارے لئے کوئی مفہوم نہیں ہے۔ معرفة الله کایہ باب ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس کے معتقد ہیں ،کیونکہ قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتابیں الله کی معرفت کے لئے ہی نازل ہوئی ہیں۔

اس موضوع کے لئے بہت سی مثالیں بیان کی جاسکتی ہیں جیسے ہم روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں لیکن روح کے وجودکے بارے میں ہمیں اجمالی علم ہے اور ہم اس کے آثارکا مشاہدہ کرتے ہیں۔

 Ø­Ø¶Ø±Øª امام محمد باقر علیہ السلام Ù†Û’ فرمایا کہ : ” کلما میزتموه باوهامکم فی ادق معانیة مخلوق مصنوع مثلکم Ùˆ مردود الیکم “ یعنی تم اپنی فکر Ùˆ فہم میں جس چیز Ú©Ùˆ بھی اس Ú©Û’ دقیق معنی میں تصو رکروگے وہ مخلوق اور تمھاری پیدا Ú©ÛŒ ہوئی چیزہے، جو تمھاری ہی مثل ہے اور وہ تمھاری ہی طرف پلٹا دی جائے Ú¯ÛŒ Û”

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے معرفة الله کے دقیق و نازک مسئلے کو بہت سادہ وزیبا تعبیر کے ذریعہ بیان فرمایا ہے :” لم یطلع الله سبحانہ العقول علی ٰ تحدید صفته ولم یحجبها امواج معرفته “یعنی الله نے عقلوں کو اپنی ذات کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود ضروری معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا۔

10.  Ù†Û تعطیل نہ تشبیہ:

ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح سے الله کی پہچان اور اس کے صفات کی معرفت کو ترک کرنا صحیح نہیں ہے اسی طرح اس کی ذات کو دوسری چیزوں سے تشبیہ دینا بھی غلط اور موجب شرک ہے۔ یعنی جس طرح اس کی ذات کو دوسری مخلوق سے مشابہ نہیں مانا جاسکتا اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے پاس اس کے پہچاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور اس کی ذات اصلاً قابل معرفت نہیں ہے۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کیونکہ ایک راہ افراط اور دوسری راہ تفریط ہے۔



back 1 2 3 4 5 6