امامت



”یہ میرا عہدہ (امامت) ظالموں اور ستمگروں تک نھیں پہنچ سکتا“، یعنی منصب امامت حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت میں ان حضرات تک پہنچے گا جو ظالم نہ ھوں گے۔

حالانکہ قرآن کریم نے خداوندعالم کے ساتھ شرک کو عظیم ظلم قرار دیا ھے، اور حکم خدا سے تجاوز کو اپنے نفس پر ظلم شمار کیا ھے (جو کہ گناہ ھے) ، یعنی اور جو شخص اپنی زندگی کے کسی بھی حصہ میں گناہ کا مرتکب ھوا ھے تو وہ ظالم ھے اور وہ مقام امامت کے لئے شائستہ نھیں ھوسکتا۔

دوسرے الفاظ میں یوں کھیں کہ اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ جناب ابراھیم علیہ السلام نے ”امامت“ کو اپنی ذریت اور نسل میں سے ان لوگوں کے لئے نھیں مانگا تھا جن کی پوری عمر گناھوں میںگزرے یا پہلے نیک ھوں لیکن بعدمیں بدکار ھوجائیں، اس بنا پر صرف دو قسم کے افراد باقی رہتے ھیں:

۱۔ جولوگ شروع میں گناہگار تھے لیکن بعد توبہ کرکے نیک ھوگئے۔

۲۔جن افراد نے اپنی پوری زندگی میں کوئی گناہ نہ کیا ھو۔

خداوندعالم نے اپنے کلام میں پہلی قسم کو الگ کردیا، (یعنی پہلے گروہ کو امامت نھیں ملی گی)، جس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ مقام ”امامت“ صرف دوسرے گروہ سے مخصوص ھیں، (یعنی جن افراد نے اپنی زندگی میں کوئی گناہ نہ کیا ھو)۔

امام معاشرہ کا مدیر ھوتا ھے

چونکہ انسان ایک سماجی موجود ھے اور معاشرہ اس کے دل وجان اور رفتار و گفتار بہت زیادہ تاثیر کرتا ھے، اس کی صحیح تربیت اور قربِ الٰھی کی طرف بڑھنے کے لئے اجتماعی راستہ ہموار ھونا چاہئے اور یہ چیز الٰھی اور دینی حکومت کے زیر سایہ ھی ممکن ھوسکتی ھے۔ لہٰذا لوگوں کا ہادی اور رہبر معاشرہ کو ادارہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھو، اور قرآنی تعلیمات اور سنت نبوی کا سہارا لیتے ھوئے بہترین طریقہ سے اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالے۔

اخلاقی کمالات سے آراستہ ھونا

امام چونکہ معاشرہ کا ہادی اور رہبر ھوتا ھے لہٰذا اس کو تمام برائیوں اور اخلاقی پستیوں سے پاک ھونا چاہئے، اور اس کے مقابلہ اخلاقی کمالات کے اعلیٰ درجہ پر فائز ھو، کیونکہ وہ اپنے ماننے والوں کے لئے انسان کامل کا بہترین نمونہ شمار ھوتا ھے۔

حضرت امام رضا علیہ الصلاة و السلام فرماتے ھیں:

”امام کی کچھ نشانیاں ھوتی ھیں: وہ سب سے زیادہ عالم، ۔۔۔ سب سے زیادہ پرھیزگار، سب سے زیادہ حلیم، سب سے زیادہ شجاع، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ عبادت کرنے والا ھوتا ھے“۔([5])



back 1 2 3 4 5 6 next