"حی علیٰ خیر العمل " كے جزء اذان ھونے كے سلسلہ میں علماء كے نظریات



 

شیعہ علماء اور فقھاء رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اھل بیت علیھم السلام سے وارد روایتوں پر عمل كرتے ھوئے قائل ھیں كہ "حی علی خیر العمل" اذان و اقامت كا جز ھے اور اس كے بغیر اذان و اقامت صحیح نھیں ھے۔

انھیں علماء میں سے شیخ مفید (رح) 73ور سید مرتضیٰ (رح) بھی ھیں۔ سید مرتضیٰ (رح) اپنی كتاب 'الانتصار" میں یوں رقمطراز ھیں: "ومما انفردت بہ الا مامیہ ان تقول فی الاذان والاقامة بعد قول "حی علٰی الفلاح" "حی علیٰ خیر العمل" والوجہ فی ذلك اجماع الفرقہ المحقة علیہ"

ترجمہ: "امامیہ كا دوسرے فرقوں سے ایك امتیاز یہ ھے كہ وہ اذان اور اقامت میں "حی علی الفلاح" كے بعد "حی علٰی خیر العمل" كھتے ھیں۔ اور اس كی وجہ یہ ھے كہ فرقہ حقہ كا اس پر اجماع ھے"۔

اس كے بعد سید مرتضیٰ (رح) فرماتے ھیں: اھل سنت نے یہ روایت كی ھے كہ یہ فقرہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی حیات طیبہ كے كچھ دنوں بعد تك اذان میں شامل تھا پھر یہ حكم منسوخ ھوگیا اور یہ فقرہ ھٹا دیا گیا۔ 74

(مندرجہ بالا روایت سے یہ ثابت ھوتا ھے كہ اھل سنت، نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی حیات طیبہ كے اوائل میں "حی علٰی خیر العمل" كے وجود كے قائل ھیں لیكن بعد میں اس كے منسوخ ھونے كا دعویٰ كرتے ھیں۔) اور جو بھی اس كے نسخ كا دعویٰ كرتا ھے اس كے لئے ضروری ھے كہ اس كے سلسلہ میں دلیل پیش كرے۔ لیكن ان لوگوں كے پاس اس كی كوئی دلیل نھیں ھے۔ 75

انھیں علماء میں شیخ طوسی (رح) 76 قاضی عبد العزیز بن براج، طرابلسی (رح) 77ابن ادریس حلی (رح) 78علامہ حلی (رح) 79محقق اردبیلی (رح) 80 شیخ یوسف بحرینی (رح) 81 اور شیخ محمد حسن نجفی رح وغیرہ بھی شامل ھیں۔

شیخ محمد حسن نجفی رح فرماتے ھیں:"وكیف كان، فا لاذان علی الاشھر… الخ" بھر حال ھمارے نزدیك مشھور ترین قول كی بنیاد پر اذان، فتویٰ ھے۔ اور اگر اس كی دلیل میں كوئی ایسی روایت نہ بھی ھو جو بھت مشھور ھو تب بھی ھم اس پر اجماع كا دعویٰ كرسكتے ھیں۔ بلكہ "مدارك" میں آیا ھے كہ "اس پر فقھاء كا اجماع ھے اور اس میں ھمارا كوئی مخالف نھیں ھے۔" علامہ حلی (رح) نے "تذكرہ" اور نھایة الاحكام" سے حكایت شدہ قول میں اس كی نسبت "فقھاء شیعہ" كی طرف دی ھے۔ اور شھید اول نے "ذكریٰ" میں كھا ھے كہ اصحاب اس پر عمل كرتے چلے آرھے ھیں۔ اور مسالك میں ھے كہ شیعہ اور فقھاء شیعہ سب اس سلسلہ میں متحد ھیں۔ بلكہ "غنیة" كی عبارت سے ظاھر ھوتا ھے كہ اذان كی اٹھارہ فصلوں پر اجماع قائم ھے یعنی اس كی فصلیں نہ اٹھارہ سے كم ھیں اور نہ زیادہ۔

چار مرتبہ تكبیر، توحید كی گواھی، پھر رسالت كی گواھی، پھر حی علی الصلاة، پھر حی علی الفلاح، پھر حی علی خیر العمل، پھر تكبیر اور اسكے بعد تھلیل (لا الٰہ الا اللہ)۔ ان میں سے ھر فصل دو دو بار۔ بلكہ "معتبر" اور "تذكرہ" میں اس كے علاوہ "ناصریات" سے حكایت كئے گئے قول كی بنیاد پر، نیز بحار اور "منتھی" میں اذان كے آخر میں دو مرتبہ "لا الٰہ الا اللہ" ھونے پر اجماع كا دعویٰ كیا گیا ھے۔ اور "منتھی" میں اذان كے شروع میں چار مرتبہ تكبیر پر بھی اجماع كا دعویٰ كیا گیا ھے۔

اقامت كی فصلوں كے سلسلہ میں فقھاء كے درمیان عظیم شھرت یہ ھے، بلكہ "تذكرہ" میں شھرت كی نسبت فرقۂ امامیہ، اور منتھی و نھایہ میں اس كی نسبت علماء شیعہ كی طرف دی گئی ھے، "مھذب" سے حكایت شدہ قول كے مطابق فقھاء كے درمیان اس میں كوئی اختلاف نھیں ھے، اور شھید نے "ذكریٰ" میں كھا ھے كہ فقھاء اسی پر عمل كرتے چلے آرھے ھیں۔ اور صاحب مسالك نے كھا ھے كہ ایك گروہ اس پر عمل پیرا رھا ھے كہ اقامت كی تمام فصلیں دو دو مرتبہ ھیں۔ "حی علٰی خیر العمل" اور تكبیر كے درمیان دو مرتبہ "قدقامت الصلاة" كا اضافہ ھے۔ اور آخر سے ایك مرتبہ "لا الٰہ الا اللہ" ساقط ھے۔ اس طرح اس كی سترہ فصلیں گوگئیں۔ 82



1 2 3 4 5 6 7 8 9 next