قريش کی سازشيں



اگرچہ رسول خدا اور بنی ھاشم میں چند حضرات حضرت ابوطالب کی زیر حمایت کچھ حد تک دشمنوں کی گزند سے بالخصوص جسمانی آزار و ایذاء سے محفوظ تھے مگر بے پناہ اور بے یار و مددگار مسلمان ایذاء رسانی اور شکنجہ کشی کی انتھائی سخت تکالیف ومشکلات سے گزر رھے تھے۔

رسول اکرم (ص) کے لئے یہ بات سخت شاق و ناگوار تھی کہ آپ کے اصحاب و ھمنوا ایسی سخت مشقت میں مبتلا رھیں اور ھر طرح کے مصائب و آلام سے گزرتے رھیں، دوسری طرف اس بات کا بھی امکان تھا کہ اگر یھی کیفیت برقرار رھی تو ھوسکتا ھے کہ نومسلم اپنے عقیدے میں سست ھوجائیں۔

اس کے علاوہ یھی حالت دوسرے لوگوں کو اسلام کی جانب مائل ھونے سے روک بھی سکتی تھی، چنانچہ ان حالات کے پیش نظر یہ لازم سمجھا گیا کہ اس دیوار کو گرا دیا جائے تاکہ قریش یہ جان لیں کہ قوت اسلام ان کی حد تصور اور تسلط و اقتدار سے کھیں زیادہ بلند و برتر ھے۔

اس گھٹن اور دباوٴ سے نجات حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ وہ ترک وطن کرکے حبشہ چلے جائیں، اس ملک کے انتخاب کئے جانے کی چند وجوہ تھیں۔

مھاجرین کا وہ پھلا گروہ جو پندرہ افراد پر مشتمل تھا عثمان ابن مظنون کی زیر سرپرستی ماہ رجب میں بعثت کے پانچویں سال اس عیسائی ملک کی جانب روانہ ھوا اور دو ماہ بعد واپس مکہ آگیا۔

دوسرے گروہ میں تراسی مرد، اٹھارہ عورتیں اور چند بچے شامل تھے یہ گروہ حضرت جعفر ابن ابی طالب کی زیر سرپرستی ھجرت کرکے حبشہ چلا گیا، جس کا وھاں کے فرماں روا نجاشی نے بھت پرتپاک طرےقے سے استقبال کیا۔

قریش کو جب اس واقعہ کا علم ھوا تو انھوں نے عمر بن عاص اور عبد اللہ ابن ابی ربیعہ کو اپنا نمائندہ بنا کر حبشہ روانہ کیا، ان کے ھاتہ نجاشی بادشاہ اور اس کے امراء کے لئے بھت سے عمدہ تحفے بھی بھیجے اور اس سے یہ درخواست کی کہ پناہ گزیں مسلمانوں کو واپس کردیا جائے۔

قریش کے نمائندوں نے نجاشی بادشاہ اور اس کے امراء کو مسلمانوں کی طرف سے بدظن کرنے کی ھر ممکن کوشش کی اور بھت چاھا کہ مھاجرین مسلمانوں کو واپس کردیا جائے مگر انھیں اپنے مقصد میں کامیابی نھیں ھوئی اور نجاشی بادشاہ کو ھم خیال نہ بنا سکے۔

نجاشی بادشاہ نے جب مھاجرین کے نمائندے حضرت جعفر ابن ابی طالب کی دلچسپ اور منطقی باتیں سنیں اور حضرت جعفر نے جب اس کے سامنے کلام اللہ کی قرائت کی تو وہ انھیں سن کر مسلمانوں پر فریفتہ اور ان کے عقائد کا والہ و شیدا ھوگیا، چنانچہ اس نے سرکاری طور پر مسلمانوں کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کر دیا، اور قریش کے نمائندوں کو حکم دیا کہ اس کے ملک سے باھر نکل جائیں۔

ملک حبشہ میں مھاجرین انتھائی آرام اور سھولت کی زندگی بسر کرتے رھے چنانچہ جب رسول خدا(ص) ھجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو وہ بھی آھستہ آھستہ وھاں واپس آکر آنحضرت(ص) سے مل گئے۔



back 1 2 3 4 5 6 next