قريش کی سازشيں



رسول اکرم (ص) کے پاس عیسائیوں کے ایک وفد کی آمد

جو مسلمان ھجرت کرکے ”حبشہ''چلے گئے تھے ان کے وھاں رھنے کا ایک فائدہ یہ ھوا کہ جب ”حبشہ''یا ”نجران“ کے عیسائیوں کو رسول اکرم (ص) کی اطلاع ملی تو انھوں نے اپنا وفد مکہ روانہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ رسول خدا سے براہ راست گفتگو کرسکیں، یہ پھلا وفد تھا جو مکہ کے باھر سے آیا اور رسول خدا کی خدمت میں حاضر ھوا۔

نصاریٰ کا یہ وفد بیس افراد پر مشتمل تھا، رسول خدا سے ”مسجد الحرام“ میں زیارت و ملاقات سے مشرف ھوا، اور اسی جگہ باھمی گفتگو کا آغاز ھوا، جب مذاکرات کا سلسلہ ختم ھوا تو رسول خدا نے قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کرکے انھیں سنائی اور دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

عیسائیوں نے جب آیات قرآنی سنی تو ان کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ھوگئیں، اور دین اسلام قبول کرنے کا انھوں نے شرف حاصل کرلیا، جس کی وجہ یہ تھی کہ رسول خدا حضرت محمد (ص) کے جو اوصاف ان کتابوں میں بیان کئے گئے تھے وہ انھیں آپ کی ذات مبارک میں نظر آگئے تھے۔

نمائندگان کا وفد جب رسول خدا کی ملاقات سے مشرف ھوکر واپس جانے لگا تو ابوجھل اور قریش کے گروہ نے ان کا راستہ روک لیا، اور کھا کہ تم کیسے نادان ھو تمھاری قوم نے تو تمھیں اس مقصد کے لئے بھیجا تھا کہ وھاں جاکر واقعہ کی تحقیق کرو ان کا جائزہ لو لیکن تم نے بے خوف و خطر اپنے دین و آئین کو ترک کردیا اور محمد کی دعوت کو قبول کرلیا۔

نصاریٰ کے نمائندگان نے کھا۔۔۔۔۔۔ کہ ھم تمھارے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے کی غرض سے نھیں آئے تھے ھمیں ھمارے آئین و مسلک پر رھنے دو۔ (۲)

حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ کی رحلت

جناب رسول خدا (ص) اور اصحاب کو شعب ابو طالب سے نجات ملی تو اس بات کی امید تھی کہ مصائب و آلام کے بعد ان کے حالات سازگار ھوجائیں گے اور خوشی کے دن آئیں گے، مگر ابھی دوسال بھی نہ گزرے تھے کہ دو ایسے تلخ اور جانکاہ صدمات سے دوچار ھوئے جن کے باعث رسول خدا اور اصحاب رسول پر گویا غم و اندوہ کا پھاڑ ٹوٹ پڑا، اس رنج و اندور کا سبب حضرت ابو طالب کی رحلت تھی، اور اس کے تین دن یا ایک ماہ بعد آپ کی ایثار پسند شریک حیات بھی اس جھان فانی سے کوچ کر گئیں۔

حضرت ابو طالب اور خدیجہ کو ”حجون“ نامی قریش کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ (الصحیح من السیرة النبی۔ ج۲، ص۱۲۸)

حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ کی رحلت نے رسول خدا کو بھت متاثر اور غمگین کیا چنانچہ آپ نے اس غم و الم کا اظھار ان الفاظ میں فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ ان چند دنوں میں اس امت پر دو ایسی مصیبتیں نازل ھوئی ھیں کہ میں نھیں جانتا کہ ان میں سے کس نے مجھے زیادہ متاثر کیا ھے۔ (یعقوبی)

رسول خدا (ص) کواپنے واجب الاحترام چچا اور وفا شعار شریک حیات کی رحلت کا اس قدر صدمہ ھوا کہ آپ بھت کم گھر سے باھر تشریف لاتے، چونکہ یہ دونوں عظیم حادثات بعثت کے دسویں سال میں واقع ھوئے تھے، لھٰذا ان کی اھمیت کو مد نظر رکھتے ھوئے اس سال کو ”عام الحزن“ یعنی غم و اندوہ کا سال کھا جانے لگا۔ (السیرة الحلبیة۔ ج۱، ص۳۴۷)

حضرت ابوطالب کی مظلومیت

حضرت ابوطالب کو چونکہ اپنے بھتیجے کے اوصاف حمیدہ کا علم تھا اور اس امر سے بھی واقف تھے کہ آپ کو رسالت تفویض کی گئی ھے اس لئے وہ نھایت خاموشی سے آپ پر ایمان لے آئے تھے، وہ رسول خدا (ص) کی بیالیس سال سے زیادہ عرصہ تک حفاظت و نگرانی کرتے رھے یعنی اس وقت سے جبکہ رسول خدا (ص) کا سن مبارک آٹہ سال تھا، اور اس وقت تک جب آپ پچاس سال کے ھوگئے تھے، اور چونکہ حفاظت و حمایت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے لھٰذا آپ کے پروانہ وار والہ و شیفتہ تھے، اور یھی وجہ تھی کہ انھوں نے رسول خدا (ص) کے آسمانی آئین کی ترویج کی خاطر کبھی جان و مال سے دریغ نھیں کیا یھاں تک کہ اسی سال کی عمر میں اس وقت انتقال کیا جبکہ آپ کا قلب خدا اور رسول پر ایمان سے منور تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 next