قريش کی سازشيں



جیسے ھی حضرت ابوطالب نے رحلت فرمائی دشمنوں کے آستینوںکے پوشیدہ ھاتہ بھی باھر نکل آئے اور وہ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ صدر اسلام کے اس مرد مجاھد و سخت کوش انسان کی موت بحالت کفر واقع ھوئی ھے تاکہ لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ رسول کی حفاظت و حمایت ان کا قومی جذبہ تھا، جس نے انھیں اس ایثار و قربانی پر مجبور کیا تھا۔

حضرت ابوطالب کے ایمان لانے پر شک وشبہ پیدا کرنے میں جو محرک کار فرما تھا اس کی مذھبی عقیدے سے زیادہ سیاسی اھمیت تھی بنی امیہ کی سیاسی حکمت عملی کی اساس چونکہ خاندان رسالت کے ساتھ دشمنی و کینہ توزی پر قائم تھی اس لئے انھوں نے بعض جعلی روایات پیغمبر اکرم (ص) سے منسوب کرکے حضرت ابوطالب کو کافر مشھور کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا ابو طالب کو کافر ثابت کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کے فرزند عزیز حضرت علی(ع) کو عظمت و فضیلت کے اعتبار سے دوسروں پر فوقیت و برتری حاصل نھیں ھے اگر حضرت ابو طالب حضرت علی (ع) کے والد بزرگوار نہ ھوتے تو وہ ھرگز اس بات کا اتنا زیادہ چرچا نہ کرتے اور نہ ھی اس قدر نمایاں طور پر جوش و خروش دکھاتے۔

کوئی بھی ایسا انصاف پسند شخص جسے تاریخ اسلام کے بارے میں معمولی سی بھی واقفیت ھوگی اور پیغمبر اکرم (ص) کے اس عظیم حامی اور مددگار کی جد و جھد سے لبریز زندگی کے بارے میں علم رکھتا ھوگا وہ اپنے دل میں حضرت ابو طالب کے بارے میں ذرا بھی شک و شبہ گوارا نہ کرے گا، اس کی دو وجہ ھیں:

اول: اگر کوئی شخص قومی تعصب کی بناپر کسی دوسرے شخص یا قبیلہ کی حمایت و پشتیبانی کرے تو یہ ممکن ھے کہ اسے ذراسی دیر میں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے لیکن یہ اس امر کا باعث نھیں ھوسکتا کہ وہ شخص چالیس سال تک نہ صرف حمایت و پشت پناھی کرے بلکہ اس شخص کا پروانہ وار شیفتہ بھی ھو۔

دوسرے: یہ کہ حضرت ابو طالب کے اقوال و اشعار، اخبار پیغمبر اور امامت ائمہ معصومین (ع) اس وھم و گمان کی تردید کرتے ھیں اور اس بات پر متفق ھیں کہ رسول خدا (ص) کی حمایت کا اصل محرک ان کا وہ راسخ عقیدہ اور محکم ایمان تھا جو انھیں رسول کی ذات بابرکت پر تھا۔

چنانچہ امام زین العابدین (ع) کی مجلس میں حضرت ابوطالب کا ذکر آیا تو آپ (ع) نے فرمایا کہ۔۔ ۔ ۔

مجھے حیرت ھے کہ لوگوں کو حضرت ابوطالب کے ایمان میں شک و تردد ھے، کیونکہ کوئی ایسی عورت جس نے دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرلیا وہ اپنے شوھر کے عقد میں نھیں رہ سکتی ھے جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد ان اولین خواتین میں سے تھیں جو دین اسلام کی سعادت سے مشرف ھوئی چنانچہ جب تک حضرت ابوطالب زندہ رھے وہ ان سے جدا نہ ھوئیں۔

حضرت امام باقر (ع) سے حضرت ابو طالب کے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا ۔ ۔ ۔ ۔

اگر حضرت ابو طالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلے میں رکھا جائے اور دوسرے پلے میں دیگر لوگوں کے ایمان کو رکھکر تولا جائے تو یقیناً حضرت ابوطالب کے ایمان کا پلہ بھاری رھے گا کیا آپ کو اس بات کا علم نھیں کہ امیر المومنین حضرت علی (ع) نے بعض لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابوطالب کی جانب سے فریضہ حج ادا کریں۔ (شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۴، ص۶۸)

حضرت امام صادق (ع) نے رسول خدا کی حدیث بیان کرتے ھوئے فرمایا تھا کہ حضرت ابوطالب کا ایمان اصحاب کھف کے ایمان کی طرح تھا اگرچہ وہ لوگ دل سے ایمان لائے تھے مگر زبان سے اس کا اظھار کرتے تھے ان کے اس عمل کا خداوند تعالیٰ انھیں دوگنا اجر دے گا۔

حضرت ابوطالب نے دین اسلام کی ترویج و تبلیغ کے لئے جو خدمات انجام دیں ان کے بارے میں ابن ابی الحدید لکھتا ھے کہ۔ ۔ ۔

کسی شخص نے حضرت ابوطالب کے ایمان سے متعلق کتاب لکھی اور مجہ سے کھا کہ اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظھار کروں اور اس پر اپنے ھاتہ سے کچھ لکھوں۔

میں نے کچھ اشعار اس کتاب کی پشت پر لکہ دیئے جن کا مضمون یہ تھا:

لو لا ابوطالب و ابنہ مثل الذین شخصاً فقاما فذاک بمکة آوی و حامی و ھذا بیثرب جس الحماما۔ (۲۴۰) ابن ابی الحدید ص۸۳ و ۸۴

اگر ابوطالب اور ان کے فرزند علی (ع) نہ ھوتے تو دین اسلام ھرگز قائم نھیں ھوسکتا تھا باپ نے مکہ میں پیغمبر کی حمایت کی اور بیٹا یثرب میں موت کی حد تک آگے بڑہ گیا۔



back 1 2 3 4 5 6