قريش کی سازشيں



شعب ابوطالب میں مسلمانوں پر ایسے سخت دن گزر گئے کہ کبھی کبھی تو انھیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے درخت کے پتوں پر گزارہ کرنا پڑتا تھا۔

ان مھینوں کے درمیان جو حرمت کے مھینوں کے نام سے مشھور ھیں اگرچہ قریش ان سے کوئی باز پرس نہ کرتے البتہ دوسرے طریقوں سے انھیں پریشان کیا جاتا، انھوں نے مسلمانوں کی قوت خرید کو تباہ کرنے کے لئے چور بازاری کا دھندا شروع کردیا، اور کبھی کبھی تو وہ دکانداروں کو یہ تنبیہ کرتے کہ وہ مسلمانوں کے ھاتہ کوئی چیز فروخت نہ کریں۔

امیر المومنین حضرت علی (ع) ان چار مھینوں سے الگ جو کہ حرمت کے مھینے کھلاتے ھیں کبھی کبھی چھپ کر مکہ جاتے اور وھاں سے کھانے کا سامان جمع کرکے شعب ابوطالب میں لاتے تھے۔

حضرت ابوطالب کو رسول خدا (ص) کی ھر وقت فکر دامنگیر رھتی تھی کیونکہ انھیں خطرہ تھا کہ کھیں ان کے بھتیجے کی جان پر نہ بن جائے، چنانچہ وہ شعب ابوطالب کے بلند مقامات پر پھرہ دار مقرر کرنے کے علاوہ پیغمبر کو اپنے بستر پر سلاتے، اور جب سب سو جاتے تو اپنے فرزند حضرت علی (ع) کورسول خدا کے بستر پر سونے کے لئے کھتے اور سول خدا کو یہ ھدایت کرتے کہ آپ کھیں اور سو رھیں۔ (۳)

محاصرہ کا خاتمہ

تین سال سخت رنج و تکلیف برداشت کرنے کے بعد بالآخر امداد غیبی مسلمانوں کے شامل حال ھوئی اور جبرئیل امین نے پیغمبر اکرم (ص) کو یہ خوشخبری دی کہ خداوند تعالیٰ نے دیمک کو اس عھد نامے پر مسلط کر دیا ھے، اور اس نے پوری تحریر کو چاٹ لیا ھے اب صرف اس پر ”باسمک اللھم“ باقی بچا ھے۔

رسول خدا (ص) نے اس واقعے کی اطلاع اپنے چچا کو دی، یہ سنکر حضرت ابوطالب قریش کے مجمعِ عام میں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ جو صحیفہ تم لوگوں نے لکھا تھا اسے پیش کیا جائے، اسی ضمن میں مزید فرمایا کہ۔۔۔

”اگر بات وھی ھے جو میرے بھتیجے نے مجہ سے کھی ھے تو تم اپنے جور و ستم سے باز آجاوٴ اور اگر اس کا کھنا غلط اور بے بنیاد ثابت ھوا تو میں خود اسے تمھارے حوالے کروں گا“

قریش کو حضرت ابوطالب کی تجویز پسند آئی، چنانچہ جب انھوں نے اس صحیفے کی مھر کو توڑا تو آپ کی بات صحیح ثابت ھوئی۔

قریش کے صاحب فھم و فراست اور عدل و انصاف کو دوست رکھنے والے افراد نے جب یہ معجزہ دیکھا تو انھوں نے قریش کی اس پست و کمینہ حرکت کی سخت مذمت کی جو انھوں نے پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے اصحاب کے ساتھ اختیار کر رکھی تھی، اور یہ مطالبہ کیا کہ عھدنامہ ”صحیفہ''کو باطل قرار دیا جائے اور محاصرہ ختم کیا جائے۔ (۱)

چنانچہ اس طرح رسول خدا (ص) اور اصحاب تین سال تک استقامت و پائیداری کے ساتھ سخت مصائب برداشت کرنے کے بعد ماہ رجب (۲) کے وسط میں بعثت کے دسویں سال سرخرو و کامیاب واپس مکہ آگئے۔



back 1 2 3 4 5 6 next