طلاق در اسلام



پیشوایان اسلام نے بھی طلاق کو نھایت نا پسندیدہ فعل قرار دیا ھے اور مختلف بیانات اس کی مذمت کی ھے چنانچہ معصوم علیہ السلام کا ارشاد ھے :,, جو عورت بغیر کسی اھم ضرورت کے اپنے شوھر سے طلاق مانگے تو خدا اس کو اپنی رحمت و عنایت سے محروم کر دے گا ۔ ،،(۵)

دوسری جگہ ارشاد ھے : ,,شادی کرو مگر طلاق نہ دو کیونکہ طلاق عرش الٰھی کو ھلا دیتی ھے ۔،،(۶)

 Ø§Ø³Ù„ام Ù†Û’ مردوں Ú©Ùˆ حق طلاق تو ضرور دیا Ú¾Û’ مگر اس اختیار سے غلط فائدہ حاصل کرنے پر پابندی لگا دی Ú¾Û’ اور اختیارات Ú©Ùˆ بھی مخصوص دائرے میں محدود کر دیا Ú¾Û’ ( مثلا ) مرد ظلم Ùˆ ایذا Ú©ÛŒ نیت سے عورت Ú©Ùˆ طلاق نھیں دے سکتا Û” اسی طرح اگر طلاق سے مفاسد Ùˆ خطرات کا یقین Ú¾Ùˆ تو طلاق Ú©ÛŒ اجازت نھیں Ú¾Û’ Û” اسلام Ù†Û’ جو شرائط Ùˆ قیود طلاق Ú©Û’ لئے معین کر دئے ھیں وہ طلاق Ú©ÛŒ قلّت Ú©Û’ اھم اسباب ھیں Û”

 Ø¹ÙˆØ±Øª Ùˆ مرد Ú©Û’ اختلاف Ú©Ùˆ دور کرنے Ú©Û’ لئے سب سے پھلا قدم گھریلو عدالت Ú¾Û’ اور یہ چیز اسلام Ú©Û’ ابتکارات میں سے Ú¾Û’ Û” ابھی تک مغربی ممالک میں اس قسم کا کوئی موثر حربہ کشیدگی دور کرنے اور زن Ùˆ شوھر میں اتحاد پیدا کرنے Ú©Û’ لئے ایجاد نھیںھوا Ú¾Û’ Û” اس گھریلو عدالت کا مطلب یہ Ú¾Û’ کہ عورت Ùˆ مرددونوں Ú©ÛŒ طرف سے ایک ایک ایسا آدمی منتخب کیا جائے جس میں حاکمیت Ú©Û’ سارے شرائط موجود Ú¾ÙˆÚº پھر یہ دونوں مل بیٹہ کر تمام حالات پر غور Ùˆ فکرکر Ú©Û’ ایک ایسا فیصلہ دیں جو دونوں Ú©Û’ لئے قابل قبول Ú¾Ùˆ Û” چنانچہ قرآن کھتا Ú¾Û’ :,, اگر ان Ú©Û’ اختلاف سے ڈرتے Ú¾Ùˆ تو ایک شخص مرد Ú©ÛŒ طرف سے Ø­Ú©Ù… بنے اور ایک عورت کا قریبی رشتے دار Ø­Ú©Ù… بنے Û” اگر یہ لوگ صلح کرنا چاھتے Ú¾ÙˆÚº Û” خدا ان Ú©Û’ درمیان صلح قرار دے گا وہ حکیم Ùˆ دانا Ú¾Û’ ۔،، ( Û·)

 Ù„یکن اگر اسباب طلاق بھت گھرے Ú¾ÙˆÚº اور اصلاح Ú©ÛŒ کوئی صورت ممکن نہ Ú¾Ùˆ تو پھر دونوں اپنا اپنا راستہ الگ کر لیں Û” لیکن عمومی عدالتوں کا ان مسائل میں دخیل ھونا بھت مضر Ú¾Û’ کیونکہ یہ بات تجربے میں آچکی Ú¾Û’ کہ عمومی عدالتوں Ú©Û’ دخل دینے سے میاں بیوی Ú©Û’ حالات اور زیادہ خراب Ú¾Ùˆ جاتے ھیںکیونکہ عمومی عدالتوں کا فریضہ Ú¾Û’ کہ وہ خشک اور نا قابل جھکاؤ قانون Ú©Û’ ما تحت طرفین Ú©ÛŒ دلیلوں Ú©Ùˆ سن کر فیصلہ کریں Û” اب جس Ú©Û’ دلائل مضبوط Ú¾ÙˆÚº Ú¯Û’ اس Ú©Û’ حق میں فیصلہ Ú¾Ùˆ جائے گا وہ لوگ آتش اختلاف Ú©Ùˆ بجھانے Ú©ÛŒ کوشش نھیں کرینگے اور نہ اختلاف Ú©Û’ اسباب دور کرنے Ú©ÛŒ کوشش کریں Ú¯Û’ Û” اس Ú©Û’ علاوہ ایک بڑی خرابی اور بھی Ú¾Û’ کہ طرفین خالص گھریلو باتوں Ú©Ùˆ اپنا دعویٰ ثابت کرنے Ú©Û’ لئے بیگانہ افراد Ú©Û’ سامنے پیش کریں Ú¯Û’ جس سے مرد Ùˆ عورت Ú©Û’ احساس مجروح ھوتے ھیں ان Ú©ÛŒ شخصیتیں متاثر Ú¾Ùˆ جاتی ھیں اور پھر اختلاف Ú©Ù… ھونے Ú©Û’ بجائے بڑہ جاتا Ú¾Û’ Û”

 Ø·Ù„اق Ú©Û’ شرائط میں ایک شرط یہ بھی Ú¾Û’ کہ دو عادل افرادکے سامنے صیغہ طلاق جاری کیا جائے ۔اس سلسلے میںقرآن فرماتاھے: طلاق پر دو عادل مسلمانوں Ú©Ùˆ گواہ بناؤ Û” (Û¸)

اب اگر دو عادل شخصیتوں کے بغیرصیغہ طلاق جاری کیا گیا تو طلاق باطل ھے ۔ طلاق میں دو عادل افرادکی شرط کا فائدہ یہ ھے کہ جب ان کے سامنے مسئلہ آئے گا تو وہ اپنی عدالت کی وجہ سے اس بات پر مجبور ھیں کہ کوشش کر کے میاں بیوی میں اختلاف کو ختم کرا دیں ۔ اور حتی الامکان طلاق نہ ھونے دیں لیکن طلاق کے بعد اگر شوھر رجوع کرنا چاھے تو پھر رجوع کے لئے کوئی شرط نھیں ھے یھاں معاملہ طلاق کے بالکل بر عکس ھے کیونکہ اسلام کا نظریہ یہ ھے کہ اتحاد و اتفاق اور رشتہٴ ازدواج کی بقاء میں کسی قسم کی تاخیر نہ ھونی چاھئے ، اختلاف و جدائی کوختم کرنے اور الفت و محبت کو بحال کرنے کے لئے اسلام نے مختلف سھولتیں مھیا کی ھیں ۔

 Ø§Ø³ Ú©Û’ علاوہ ھر وقت دو عادل افرادکا ملنا بھی ممکن نھیں Ú¾Û’ اس لئے حتی الامکان طلاق میں Ú©Ù…ÛŒ Ú¾Ùˆ Ú¯ÛŒ کیونکہ جب تک دو عادل افرادکی تحقیق نہ ھوجائے مرد چاھنے Ú©Û’ بعد بھی طلاق نھیں دے سکتا اسی طرح طلاق Ú©Û’ لئے عورت کا حیض Ùˆ نفاس سے پاک ھونا بھی شرط Ú¾Û’ Û” بھت سے ایسے مقامات آتے ھیں کہ مرد طلاق دینے پر آمادہ Ú¾Û’ لیکن عورت Ú©ÛŒ ناپاکی اس ارادے میں حائل Ú¾Ùˆ جاتی Ú¾Û’ اور وہ ایک مدت Ú©Û’ لئے ٹل جاتا Ú¾Û’ بھت ممکن Ú¾Û’ کہ اتنے دنوں میں حالات بدل جائیں اور مرد اپنے ارادے سے باز آجائے Û”

 Ø³Ø¨ سے بڑی بات یہ Ú¾Û’ کہ جب مشترک زندگی مرد Ú©Û’ لئے مشکل Ú¾Ùˆ جائے اور عورت سے بیزاری Ú©ÛŒ وجہ سے مرد طلاق دینا چاھے تو طلاق Ú©Û’ بعد بھی رشتہٴ ازدواج منقطع نھیں ھوتا اور میاں بیوی ( شرعی طور سے ) ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوتے بلکہ عدہ ختم ھونے سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ جس وقت مرد چاھے پھر سے اس سلسلے Ú©Ùˆ دوام بخش سکتا Ú¾Û’ Û”

آخری اقدام جو اسلام نے بقائے عقد کی خاطر کیا ھے وہ یہ ھے کہ طلاق رجعی دینے کے بعد بھی مرد کا فریضہ ھے کہ عدت کے زمانے یعنی تین ماہ کچہ دن تک عورت کو گھر سے نکال نھیں سکتا اور خود بھی کسی بھت ضروری امر کے بغیر گھر سے باھر نھیں نکل سکتی ، چنانچہ ارشادقرآن ھے: خبردار انھیں انکے گھروںسے نہ نکالنا اور نہ وہ خود نکلیںجب تک کوئی کھلا ھوا گناہ نہ کریں ، یہ خدائی حدود ھیںاور جو خدائی حدودسے تجاوز کریگا اس نے اپنے ھی نفس پر ظلم کیا ھے تمھیں نھیں معلوم کہ شاید خدا اس کے بعد کوئی نئی بات ایجاد کردے ۔(۹)



back 1 2 3 4 5 6 7 next